صحیح سمتوں پر ڈالنے کے علاوہ آگے بھی بڑھایا ہے۔
قرآن حکیم چونکہ ایک اصولی کتاب ہے۔ اس لئے اس میں انبیاء علیم السلام اور ان کی قوموں کا حال ضمناً ہی آیا ہے۔ اگر حقیقت کا ٹھیک ٹھیک مشاہدہ کرنا ہوکہ شریعت واحکام کا آغاز کیونکر سادگی سے ہوا اور پھر کس طرح اس کا معاملہ آہستہ آہستہ پیچیدہ ہوتا گیا اور پھیلتا گیا تو اس کے لئے بائبل کا مطالعہ نہایت ضروری ہے۔ یہاں آپ کو معاشرہ واقعی ایک رفتار سے چلتا ہوا اور ایک خاص رخ کی طرف بڑھتا ہوا معلوم ہوگا۔ یعنی یہاں آپ اس کی چال اپنی آنکھوں سے دیکھ سکیںگے اور معلوم کرسکیںگے کہ شریعت وآئین میں کیونکر اور کب ناگزیر تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ اثریات کے مطالعہ نے بھی ہمارے سامنے قوموں کے ابتدائی کلچر کو بڑی حد تک اجاگر کیا ہے اور بتایا ہے کہ دنیا کے مختلف گوشوں میں انسان کی ترقی کی کون کون سی منزلیں طے کیں اور اس کی زندگی کے ڈھنگ میں کیاکیا تغیرات رونما ہوئے۔
یہ صحیح ہے کہ ارتقاء کی یہ گاڑی کبھی بخط مستقیم آگے نہیں بڑھی۔ بلکہ بسااوقات ایسا بھی ہوا ہے کہ فکروعمل کی ایک ہی لغزش نے انہیں صدیوں پیچھے پھینک دیا۔ پھر اس کی راہ میں موڑ، انحراف اور بے شمار رکاوٹیں بھی آئی ہیں۔ لیکن جہاں تک رشدوہدایت کا تعلق ہے۔ اس کے تقاضوں نے کبھی بھی بخل سے کام نہیں لیا۔ ہمیشہ اﷲتعالیٰ کی طرف سے رسول آتے رہے۔ اس لئے بحیثیت مجموعی یہ کہنا درست ہے کہ معاشرہ برابر حرکت پذیر رہا اور آئین وشریعت کے اعتبار سے زندگی کے چوکھٹے بدلتے رہے۔
زندگی متحرک تو ہے لیکن اس کی ایک منزل بھی ہے
غلط اس نقطہ نگاہ سے ہے کہ یہ رفتار قیامت تک اسی نہج سے جاری رہے گی اور عقائد وعمل کی دنیا میں سچائیوں اور صداقتوں کا وزن متغیر ہوتا رہے گا۔ اس خیال کی تہ میں ایک طرح کا ذہنی مغالطہ نہاں ہے۔ ذہن کی عادت یہ ہے کہ یہ جب ایک چیز کو ایک سے زائد بار ایک ہی ڈھنگ پر ظاہر ہوتے دیکھتا ہے تو اس سے مانوس ہوجاتا ہے اور یہ چاہتا ہے کہ یہ اسی طرح ہمیشہ ظاہر ہوتی رہے اور پھر اس سے آگے بڑھا کر بالآخر یہ حکم لگادیتا ہے کہ یہ اسی طرح ہوگا۔ مادہ کی تقسیم پذیری کے مسئلہ میں یونانیوں کو یہی دھوکا ہوا۔ یعنی جب ذہن نے دیکھا کہ ہر چیز تقسیم ہونے اور مختلف اجزاء میں بٹ جانے کے بعد بھی مزید تقسیم کی متحمل رہتی ہے تو اس سے اندازہ ہوا کہ تقسیم وتجزیہ کا یہ فعل کبھی ختم نہ ہوگا اور مادہ کا ہرہرجز برابر تقسیم ہوتا چلا جائے گا۔ حالانکہ یہ بداہتہً غلط ہے۔ ایک کشتی چلتی ہے۔ ایک جہاز سمندر میں تیرتا ہے۔ ایک تیر فضا میں چھوڑا جاتا ہے۔