اور اس رسول انام عالی مقام علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہاتھ وہ کتاب ہدایت انتساب بھیجی جو ہر ملک، ہر شہر، ہر قریہ، ہر زمانہ، ہر وقت کے مناسب حال بلکہ ہر فرد بنی نوع انسان کی طبیعت کے موافق۔ نئی دنیا کو بھی ویسی ہی مفید جیسے پرانی کو۔ برفستانی علاقے میں بھی ویسی ہی سہل العمل جیسی ریگستانی گرم خطوں میں۔ بزرگ ترین کتاب اس مقدس رسول اﷲﷺ پر نازل کی۔ جس نے اپنی مزکی ومطہر فطرت، اپنے کلمات طیبات، اپنے فیض صحبت سے عرب کی سی جاہل اجڈ، غیر متمدن، سرکش قوم کو آسمان انسانیت کے درخشندہ ستارے بنادیا۔ ان کے اکھڑ پن کو نرمی اور رحم دلی سے، ان کی جہالت کو علم وفضل سے، ان کی غیر مدنی کو امن پسند بلکہ امن ساز ججوں سے ان کی سرکشی کو کامل اطاعت شعاری سے بدل دیا۔ وہ جنہیں گلہ بانی کی بھی تمیز نہ تھی۔ چند ہی سالوں کے اندر اس مقدس رسول اﷲﷺ کی تعلیم کی برکت سے زمام سلطنت سنبھالے ہوئے جہانبافی کرنے لگے۔ ’’اللہم صل علیٰ محمد وعلیٰ اٰل محمد کما صلیت علیٰ ابراہیم وعلیٰ اٰل ابراہیم انک حمید مجید۰ اللہم بارک علیٰ محمد وعلیٰ اٰل محمد کما بارکت علیٰ ابراہیم وعلیٰ اٰل ابراہیم انک حمید مجید‘‘
دیباچہ قابل ملاحظہ
برادران اسلام! یہ بات بالکل سچ ہے کہ: ’’حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر زمانہ ترقی کرتا گیا اور قرآن مجید کے وقت دائرہ کی طرح پورا ہوگیا۔ حدیث میں ہے کہ زمانہ مستدیر ہوگیا اور اﷲتعالیٰ فرماتا ہے ’’ماکان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین‘‘ ضرورتیں نبوت کا انجن ہیں۔ ظلماتی راتیں اس نور (نبوت) کو کھینچتی ہیں۔ جو تاریکی سے دنیا کو نجات دے۔ اس ضرورت کے موافق نبوت کا سلسلہ شروع ہوا اور جب قرآن مجید کے زمانہ تک پہنچا تو مکمل ہوگیا۔ اب سب ضرورتیں پوری ہو گئیں۔ اس سے لازم کہ آپ یعنی آنحضرتﷺ خاتم الانبیاء تھے۔‘‘ (تقریر مرزا در سالانہ جلسہ قادیان منعقدہ ۱۸۹۷ء ص۸۷)
مگر کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ باوجود ختم ہو چکنے سلسلہ نبوت کے اور باوجود اس کے کہ: ’’آنحضرتﷺ نے باربار فرمایا کہ میرے بعد کوئی نبی آئندہ پیدا ہونے والوں سے نہیں آئے گا اور حدیث لا نبی بعد بھی ایسی مشہور تھی کہ اس کی صحت میں کسی کو کلام نہ تھا اور قرآن شریف جس کا لفظ لفظ قطعی ہے۔ اپنی آیت کریمہ ’’ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین‘‘ سے بھی اس بات کی تصدیق کرتا تھا کہ فی الحقیقت ہمارے نبیﷺ پر نبوت ختم ہو چکی۔‘‘
(کتاب البریہ ص۱۸۴، خزائن ج۱۳ ص۲۱۷)