۶…
مسلمان کو ہرگز اجازت نہیں کہ وہ کسی کے معبودوں کو برا کہے اور یوں انہیں اپنے شعار دین کے خلاف غیر مؤدبانہ الفاظ کے استعمال کا موقعہ دے۔
۷…
لیکن اس کے باوجود اگر غیر مسلم فرد یا قوم یا حکومت مسلمانوں کے حق تبلیغ کو چھینے اور ان پر ظلم کرے تو مسلمان کو اجازت ہے کہ وہ اس کے مقابلہ میں ذیل کے وسائل اختیار کرے۔
الف… استطاعت ہو تو جہاد بالسیف کرے۔
ب… یہ ممکن نہ ہو تو ہجرت کر جائے۔
ج… یہ بھی ممکن نہ ہو تو عدم تعاون کرے۔
۸…
اگر کوئی مسلمان ہجرت یا جہاد کی استطاعت نہ رکھتا ہو اور دشمن اسلام سے عدم تعاون بھی نہ کرے تو گناہ کبیرہ ہے۔ وہ قرآن الحکیم کے الفاظ میں دشمنوں میں سے سمجھا جائے گا۔
۹…اگر واقعی عدم تعاون کی استطاعت بھی نہ ہو تو خدا اس کو معاف کرنے والا ہے۔
۱۰…
اگر جہاد کرے تو مسلمان کا فرض ہے کہ وہ دشمن پر اس سے زیادہ سختی نہ کرے۔ جتنی کہ اس سے کی گئی ہو۔
۱۱…
اگر جنگ شروع ہو جائے تو فتنہ کے ہٹنے تک مسلمان لڑنے پر مجبور ہے۔
۱۲…
دوران جنگ میں بڈھوں، بیماروں، عورتوں بچوں اور معذور لوگوں پر ہاتھ اٹھانا منع ہے۔ درخت ترکاریاں کھیتیاں اور گھر برباد کرنے کی بھی اجازت نہیں۔
۱۳…
انتہاء یہ ہے کہ جس وقت بھی دشمن امن کے لئے درخواست کرے۔ مسلمان جنگ ترک کر دینے پر مجبور ہے۔ مسلمان کو قرآن شریف حکم دیتا ہے کہ اگر یہ صلح جوئی فریب پر مبنی ہو تو بھی خدا اور رسول کے نام پر جو فریب دیا جائے اس کو قبول کرو اور فریب کو عذر قرار دے کر دشمن کی تجویز مصالحت کو مسترد نہ کرو۔ بلکہ اس کے فریب کو اﷲتعالیٰ پر چھوڑ دو۔ یہ حکم سورۂ انفال میں وضاحت سے مرقوم ہے۔
قسط بست وہشتم (۲۸)
جہاد اسلامی کا مرقع پیش کرچکا ہوں۔ اس پر غور کیجئے اور پھر فرمائیے کہ ان حالات میں مرزاقادیانی کا فرمانا کہ اب تلوار کا زمانہ نہیں رہا۔ بلکہ دلیل کا زمانہ ہے۔ کیا معنی رکھتا ہے یہ اور صرف یہ کہ اس مسئلہ کے متعلق موصوف نے کافی غوروفکر سے کام نہیں لیا۔ دلیل تو اسلام کا سب