’’پس یاد رکھو کہ جیسا کہ خدا نے مجھے اطلاع دی ہے تمہارے پر حرام اور قطعی حرام ہے کہ کسی مفکر اور مکذب یا متردد کے پیچھے نماز پڑھو۔‘‘
(اربعین نمبر۳ ص۲۸، خزائن ج۱۷ ص۴۱۷، حاشیہ مرزاقادیانی)
اسی طرح میاں محمود احمد صاحب خلیفہ قادیان نے بھی بڑی سختی سے اپنے پیروکاروں کو مسلمانوں کے پیچھے نماز پڑھنے سے منع کیا۔ ’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سختی سے تاکید فرمائی ہے کہ کسی احمدی کو غیر احمدی کے پیچھے نماز نہیں پڑھنی چاہئے۔ باہر سے لوگ اس کے متعلق باربار پوچھتے ہیں۔ میں کہتا ہوں تم جتنی دفعہ بھی پوچھو گے اتنی دفعہ ہی میں یہی جواب دوںگا کہ غیر احمدی کے پیچھے نماز پڑھنی جائز نہیں، جائز نہیں، جائز نہیں۔‘‘ (انوار خلافت ص۸۹)
’’ہمارا یہ فرض ہے کہ غیر احمدیوں کو مسلمان نہ سمجھیں اور ان کے پیچھے نماز نہ پڑھیں۔ کیونکہ ہمارے نزدیک وہ خداتعالیٰ کے ایک نبی کے منکر ہیں۔ یہ دین کاملہ ہے اور اس میں کسی کا اپنا اختیار نہیں کہ کچھ کر سکے۔‘‘ (انوار خلافت ص۹۰، مصنفہ میاں محمود قادیانی)
قادیانی حضرات اس پر اتنے متشدد ہوئے کہ انہوں نے مکہ میں جاکر بھی مسلمانوں کے پیچھے نماز نہ پڑھی۔ چنانچہ (آئینہ صداقت ص۹۱) میںمیاں محمود قادیانی واقعہ درج کرتے ہیں۔ ’’۱۹۱۲ء میں میں سید عبدالحئی صاحب عرب مصر سے ہوتے ہوئے حج کو گیا۔ قادیان سے میرے نانا صاحب میرناصر نواب بھی براہ راست حج کو گئے۔ جدہ میں ہم مل گئے اور مکہ مکرمہ اکٹھے گئے۔ پہلے ہی دن طواف کے وقت مغرب کی نماز کا وقت آگیا۔ میں ہٹنے لگا۔ مگر راستے رک گئے تھے۔ نماز شروع ہوگئی تھی۔ نانا صاحب نے فرمایا کہ حضرت خلیفتہ المسیح (حکیم نورالدین) کا حکم ہے کہ مکہ میں ان کے پیچھے نماز پڑھ لینی چاہئے۔ اس پر میں نے نماز شروع کردی۔ پھر اسی جگہ ہمیں عشاء کو وقت آگیا۔ وہ نماز بھی ادا کی۔ گھر جاکر میں نے عبدالحئی عرب سے کہا کہ وہ نماز تو حضرت خلیفتہ المسیح کے حکم کی نماز تھی۔ اب آؤ خداتعالیٰ کی نماز پڑھ لیں جو غیر احمدیوں کے پیچھے نہیں ہوتی اور ہم نے وہ دونوں نمازیں دہرالیں اور بیس دن کے قریب جو ہم وہاں رہے یا گھر پر نماز پڑھتے رہے یا مسجد کعبہ میں الگ اپنی جماعت کراتے۔‘‘
نماز جنازہ
اسی طرح قادیانیوں نے مسلمانوں کی نماز جنازہ بھی کبھی نہیں پڑھی۔ اس سلسلے میں بھی ان کا باقاعدہ عقیدہ ہے کہ مرزاغلام احمد کی نبوت کے منکر کا نماز جنازہ جائز نہیں۔ ’’حضرت