بسم اﷲ الرحمن الرحیم … نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم!
دیباچہ قابل ملاحظہ
مرزاغلام احمد قادیانی نے اپنے دنیاوی اغراض ومقاصد کو پورا کرنے اور اپنی حالت جو یہاں تک گرچکی تھی کہ مرزاقادیانی بقول خود اپنے والد کی وفات کے وقت روٹی کی فکر میں گھلے جاتے تھے کہ سنبھالنے اور سنوارنے کے لئے جو پہلو بدلے اور بتدریج دعاوی کئے ہیں وہ محتاج بیان نہیں ہیں۔ (نزول المسیح ص۱۸۸، خزائن ج۱۸ ص۴۹۶ کہیں معمولی مسلم خادم اسلام ہونے کا دعویٰ سنایا تو کہیں مجددیت ومحدثیت کی مسند پر قبضہ جمایا۔ کہیںمسیح موعود ہونے سے انکار بلکہ اپنی طرف اس دعویٰ کومنسوب کرنے والوں پر لعنت وپھٹکار کی بوچھاڑ کی ہے۔ (ازالہ ص۷۷، خزائن ج۳ ص۱۹۲) تو کہیں علی الاعلان مسیح موعود ہونے کا اظہار ہے۔ (اربعین نمبر۲، خزائن ج۱۷ ص۱۹۵) ایک طرف مدعی نبوت کو معلون، خسر الدنیا والآخرہ۔ (انجام آتھم ص۴۵، خزائن ج۱۱ ص۴۵) کافرہ (آسمانی فیصلہ ص۳، خزائن ج۴ ص۳۱۳) بے دین، مسلمہ کذاب کا بھائی کہا جاتا ہے۔ (انجام آتھم ص۲۸، خزائن ج۱۱ ص۲۸) تو دوسری طرف یہ کہہ کر کہ ہمارا دعویٰ ہے کہ ہم نبی اور رسول ہیں۔ (اخبار بدر مورخہ ۵؍مارچ ۱۹۰۸ئ) نبوت کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے۔ ادھر مدعی الوہیت پر انتہائی ناراضگی کا اظہار ہے۔ (نور القرآن ص۱۲، خزائن ج۹ ص۳۴۱) تو ادھر الوہیت کے اعلیٰ مقام پر دعویٰ قبضہ واقتدار ہے۔
(آئینہ کمالات ص۵۶۴، خزائن ج۵ ص۵۶۴)
مگر حقیقت یہ ہے کہ آپ اپنے جملہ دعاوی میں اسی طرح غیر صادق ہیں۔ جس طرح آج کل کے دیگر متنبی باوجودیکہ آپ کا انداز تکلم گول مول، مبہم ومجمل، نجومیوں کی طرح وسیع المعانی الفاظ استعمال کرنے کا تھا۔ تاہم آپ ممتاز ونمایاں رنگ میں غیر صادق نکلے ہیں۔
خاکسار کتب مرزا کا وسیع مطالعہ کرنے کے بعد خدا کو حاضر وناظر جان کر اپنے ایمان ودیانت، علم وعقل کی بناء پر بحلف شہادت دیتا ہے کہ قادیانی نبوت کے صحرائے علم کلام میں سوائے لفاظی، سخن سازی، مغالطہ دہی اور دھوکہ بازی کی جلی پھونکی مالیدہ اور بوسیدہ بے گوشت وپوست، ٹیڑھی، ترچھی، بے ڈھنگی ہڈیوں کے اور کچھ نہیں اور خود مرزاقادیانی بلحاظ ان دعاوی کے ہرقابل تعریف فعل سے اسی طرح پاک تھے۔ جس طرح ایک گھاس خور طبیعت ماس کے ذائقہ سے۔)