مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی کیوں ضرورت پیش آئی؟ یہ موضوع ایک علیحدہ کتاب کا موضوع ہے۔ میں قائین کو صرف اتنی بات یاد دلاتا ہوں کہ مشرقی پاکستان میں فوجی کارروائی سے پہلے مجیب کے ساتھ سیاسی مذاکرات جاری تھے۔ ایک دن ریڈیو پاکستان نے خبر سنائی کہ ایم ایم احمد اچانک ڈھاکہ پہنچ گئے ہیں۔ اس خبر کے اگلے روز ہی ریڈیو نے مشرقی پاکستان میں فوجی کارروائی کی خبر سنائی۔ ایم ایم احمد کیا پروگرام لے کر اچانک ڈھاکہ پہنچے؟ اس کو اگلے روز کی فوجی کارروائی سے بخوبی سمجھا جاسکتا ہے۔ آزاد کشمیر اسمبلی کی قرارداد کے بعد ہفت روزہ بیباک کے ایک شمارے میں ایک وکیل کا ایک بیان چھپا ہے۔ جنہوں نے اس ملزم (غالباً محمد اسلم نامی) کے مقدمے کی پیروی کی تھی جس نے ایم ایم احمد پر قاتلانہ حملہ کیا تھا۔ اس میں محمد اسلم کا بیان ہے کہ میں ایم ایم احمد کے پاس گیا تھا اور پوچھا کہ کیا ہندوستان کے قادیانی بنگلہ دیش کے لئے کام کر رہے ہیں اور چندہ جمع کر ہے ہیں تو اس نے اثبات میں جواب دیا اور حملے کے لئے وجہ اشتعال یہی چیز تھی۔ ان وکیل کا نام غالباً محمد اسلم ہے اور یہ پنڈی کے ہیں۔
اکھنڈ بھارت
اس کتابچے میں ہم نے اب تک قادیانیوں کے سیاسی ماضی کے ساتھ ساتھ ان کے حال کا جائزہ بھی لے لیا ہے۔ اب قادیانیوں کے آئندہ منصوبوں کی وضاحت ضروری ہے۔ جیسا کہ پہلے بتایا گیا کہ منصوبے کے چار مراحل میں سے آخری مرحلہ اکھنڈ بھارت کا قیام ہے اور یہی قادیانیوں کے سیاسی سفر کی آخری منزل ہے۔ اس سلسلے میں قادیانی خلیفہ بشیرالدین محمود صاحب کے ایک سے زیادہ اقوال موجود ہیں۔ ۱۳؍اپریل ۱۹۴۷ء کو انہوں نے کہا۔ ’’بہرحال ہم چاہتے ہیں کہ اکھنڈ ہندوستان بنے اور ممکن ہے کہ یہ عارضی طور پر افتراق ہو اور ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ جلد دور ہو جائے۔‘‘ (الفضل مورخہ ۵؍اپریل ۱۹۴۷ئ)
اسی طرح خلیفہ صاحب نے خواب دیکھا۔ ’’حضور نے اپنا ایک رویا بیان فرمایا۔ جس میں ذکر تھا کہ گاندھی جی آتے ہیں اور ایک چارپائی پر لیٹنا چاہتے ہیں اور ذرا اسی دیر لیٹنے پر اٹھ بیٹھے۔ اس کی تعبیر میں حضور نے فرمایا کہ اﷲتعالیٰ چاہتا ہے کہ ساری قومیں متحد ہوں۔ تاکہ احمدیت اس وسیع بنیاد پر ترقی کرے۔ چنانچہ اس رویاء میں اسی طرف اشارہ ہے۔ ممکن ہے عارضی طور پر افتراق ہو اور کچھ وقت کے لئے دونوں قومیں جداجدا رہیں گی۔ مگر یہ حالت عارضی ہوگی اور ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ جلد دور ہو جائے۔‘‘