مل گئی۔ جو مولوی محمد یعقوب صاحب سنوری کی تصنیف ہے اور جو یقینا مفید معلومات کا مجموعہ ہے۔
علاوہ ازیں مجھے بہ تشکر اعتراف کرنا ہے کہ جناب سید دلاور شاہ صاحب قادیانی نے مجھے اپنی جماعت کی طرف سے ذیل کی تین کتابیں مفت بھجوادی ہیں۔
۱…
تبلیغ ہدایت، مصنفہ مرزابشیر احمد صاحب۔
۲…
عقائد احمدیت، مرتبہ سید بشارت احمد صاحب وکیل اور
۳…
دعوۃ الامیر۔ مصنفہ مرزابشیر الدین محمود احمد۔
مجھے اعتراف ہے کہ ان کتابوں کا مطالعہ میری معلومات میں اضافہ کا باعث ہوا۔ گویا تحریر کے وقت ہر خیال کی کتابیں میرے سامنے موجود تھیں۔ دعاء ہے کہ اﷲتعالیٰ مجھے حق میں داخل اور باطل سے خارج کرے۔ مجھے فہم صداقت کی نعمت عطاء فرمائے اور میری تحریر کو حق وباطل میں امتیاز کا باعث بنائے۔ آمین ثم آمین!
میں ان احباب کا جنہوں نے مجھے کتابیں عنایت کیں تہ دل سے شکر گزار ہیں۔ اسی موقعہ پر مجھے مولانا محمد اسحق خان صاحب بی۔اے علیگ مدیر سیاست کا بھی شکریہ ادا کرنا ہے۔ جنہوں نے کتابت اور پروف کی تصحیح میں اور دوایک مواقع پر عمدہ مشورہ سے میری امداد کی۔
نہایت ضروری گذارش
مسئلہ قادیان پر قلم اٹھانے سے قبل میں دو ایک باتیں لکھ دینا چاہتا ہوں تاکہ کوئی غلط فہمی پیدا نہ ہوسکے۔
اوّل…
مجھے اپنی علمی کم مائیگی کا احساس ہے میں بدرجہ مجبوری اس موضوع پر قلم اٹھا رہا ہوں۔ ورنہ یہ کام سیاسی اخبار نویسوں کا نہیں ہے۔ علمائے کرام کا ہے۔ جنہیں قرآن پاک اور حدیث شریف وغیرہ پر کامل عبور ہے۔
دوم…
مجھے کسی گروہ سے بحث کرنا مقصود نہیں۔ میں صرف یہ بیان کرنا چاہتا ہوں کہ میری دانست میں تحریک قادیان کیوں میرے لئے اور مجھ ایسے مسلمانوں کے لئے قابل قبول نہیں ہے۔
سوم…
اس مضمون میں احمدی مرزائی یا قادیانی الفاظ کے استعمال میں کسی خاص اہتمام سے کام نہیں لیاگیا اور نہ ان کے استعمال سے کسی کی ہتک یا دل آزاری ہی مقصود ہے۔ احمدی تو ایسا لفظ ہے جو
مرزاقادیانی کے پیرو خود اپنے لئے بصد شوق استعمال کرتے ہیں کہ ان کے پیرطریقت نے یہی نام ان کے لئے تجویز کیا۔ قادیان وہ شہر ہے جس کے متعلق ان کے ہادی کا اپنا شعر ہے کہ: