ہماری غفلت نے انہیں فوج کی کلیدی آسامیوں پر پہنچایا۔ انہیں اقتصاد ومعیشت کی منصوبہ بندی پر قابض بنایا۔ انہیں سول سروسز میں اعلیٰ عہدوں پر فائز کروایا۔ انہیں ایوان حکومت میں پہنچادیا اور آج قادیانی علی الاعلان کہتے پھرتے ہیں کہ معنوی اور عملی اعتبار سے ہمارا اقتدار قائم ہوچکا ہے اور چند روز کی بات ہے۔ جب جماعت احمدیہ کی مکمل حکمرانی ہوگی۔
اس مرحلہ پر ذوالفقار علی بھٹو کو بھی سوچنا چاہئے کہ انہوں نے جس سانپ کو پال رکھا ہے کہ وہ حزب اختلاف کوڈ سے وہ سانپ کل اسے بھی ڈس سکتا ہے۔ سانپ پھر سانپ ہے۔ اس کی خصلت تبدیل نہیں ہوسکتی۔ مرزائی اب بھٹو کو بھی اقتدار سے محروم کر کے اس پر قابض ہونے کی سازش تیار کر رہے ہیں۔
مرزائی تحریک کے بانی نے ملت اسلامیہ اور اس کے ہر فرد کو سڑے ہوئے دودھ سے اور اپنے متبعین کو تازہ دودھ سے تشبیہ دی ہے۔
رواداری چھوڑئیے
یہ موقع رواداری کی تبلیغ کا نہیں سیدھی سادھی بات ہے۔ مرزائی ہمیں کافر کہتے ہیں اور ہمارے نزدیک مرزائی کافر ہیں۔ جب تک ہم مرزائیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار نہیں دیتے تو واضح ہے کہ ہم انہیں ان کے تمام عقائد سمیت صحیح سمجھتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں پاکستان میں مرزائی مسلم اقلیت اور غیرقادیانی غیر مسلم اکثریت ہیں۔ کیوں یہی مفہوم نہیں نکلتا؟ فیصلہ آپ کرلیجئے۔
علامہ اقبال کی پکار
مجھے رواداری کی تلقین کرنے والے اپنے روشن خیال اور تجدد پسند دوستوں کو کچھ نہیں کہنا۔ ہاں انہیں صرف علامہ اقبالؒ کی پکار پہنچادوں گا۔ آپ نے رواداری کے انہیں مبلغین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا: ’’ایک مسلمان وجدانی طور پر ان حالات کے مخصوص مزاج کو اچھی طرح سمجھتا ہے جن میں وہ گھرا ہوا ہے اور اس لئے وہ کسی دوسرے ملک کے مسلمانوں کی بہ نسبت انتشار پسندانہ عناصر کے متعلق زیادہ حساس واقع ہوا ہے۔ ایک عام مسلمان کا یہ فطری احساس میرے نزدیک بالکل صحیح ہے اور اس کی جڑیں بلاشبہ اس کے ضمیر میں نہایت گہری ہیں۔ جو لوگ ایسے معاملہ میں رواداری کی باتیں کرتے ہیں وہ لفظ رواداری کے استعمال میں نہایت بے پرواہ واقع ہوئے ہیں اور مجھے خدشہ ہے کہ وہ اس لفظ کا صحیح مفہوم ہی نہیں سمجھتے۔ انسان کی بالکل مختلف