افسر: کیا تم بھی احمدی ہو۔
امیدوار: نہیں صاحب۔
افسر: افسوس تو اتنی دیر احمدی کے پاس رہا مگر سچائی کو اختیار نہیں کیا۔ جائو پہلے احمدی بنو پھر فلاں تاریخ کو آنا۔‘‘
غرضیکہ انگریز نے قادیانیوں کو ان کی خدمات کے سلسلہ میں ملازمتیں فراہم کیں اور اس زمانے میں بہت سے تعلیم یافتہ بیروزگار مسلمانوں کے قادیانی ہونے کا سبب یہی ملازمت کی کشش تھا۔
ضلع گورداسپور کا مسئلہ
قیام پاکستان کے موقع پر قادیانی گروہ نے بھرپور کوشش کی کہ قادیان ہندوستان میں شامل رہے۔ مسلم لیگ کی طرف سے چوہدری ظفراﷲ ریڈ کلف ایوارڈ کے سامنے پیش ہوئے ’’مارشل لاء سے مارشل لاء تک‘‘ کے مصنف اس سلسلے میں رقمطراز ہیں: ’’ریڈ کلف اپنے سامنے پیش ہونے والے مقدمہ کے اس خاص نقطہ میں پیشگی دلچسپی لے رہا تھا جس علاقہ پر پرواز کرنا چاہتا تھا وہ وہی علاقہ تھا جس کا ضلع گرداسپور کی تقسیم سے تعلق تھا… حالات کی ستم ظریفی یہ تھی کہ مسلم لیگ کے مقدمہ کی پیروی کرنے والے وکیل اسے خودہی چاندی کی طشتری میں رکھ بھارت کو پیش کررہے تھے۔‘‘ (ص۳۱۸)
قادیانی جماعت چاہتی تھی کہ قادیان ہندوستان میں شامل رہے۔ کیونکہ ہندوستانی حکومت سے انہیں توقع تھی کہ وہ انہیں ملک بدر نہ کرے گی اور تحصیل پٹھانکوٹ کے راستے قادیانی ریاست کشمیر کو اپنی تبلیغی سرگرمیوں کا مرکز بناسکیں گے۔ کیونکہ ان کے نبی نے ریاست کشمیر کے قادیانی ریاست میں بدل جانے کی پیش گوئی کی تھی۔ چنانچہ قادیانیوں نے غیر معمولی دلچسپی لی کہ تحصیل پٹھانکوٹ ہندوستان کو مل جائے۔ اسی سلسلے میں مردم شماری کے موقع پر قادیانی جماعت کے افراد کو ہدایت کی گئی کہ وہ اپنے نام کے سامنے مسلم کی بجائے احمدی درج کرائیں۔ اس سے تحصیل پٹھانکوٹ مسلم اکثریت کی بجائے اقلیت کی تحصیل بن گئی۔ قائداعظم محمدعلی جناح نے چوہدری ظفراﷲ کو وزیر خارجہ مقرر کیا اور چوہدری ظفراﷲ خان نے پاکستان کے ابتدائی دور کی مالی مشکلات کے باوجود پانچ لاکھ روپے وکالت کی فیس وصول کی۔ لیکن ایوارڈ کے سامنے پاکستانی نقطہ نظر کی بجائے قادیانی نقطہ نظر پیش کیا۔ اس کا حال بونڈری کمیشن کے ایک رکن جسٹس محمدمنیر کی زبانی سنئے: ’’گورداسپور کے سلسلہ میں انتہائی افسوسناک واقعہ کا ذکر کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ یہ بات کبھی میری سمجھ