دوسرے مقام پر اﷲتعالیٰ نے بوضاحت فرمایا ہے۔ ’’ولو جعلنا قرانا اعجمیاً لقالوا لولا فصلت ایتہ ء اعجمی وعربی (حم:)‘‘ اگر ہم اس قرآن کو اوپری زبان میں بناتے تو کفار معترض ہوتے کہ اس کی آیات کھول کر کیوں نہ بیان کی گئیں۔ یہ کیا بات ہے کہ عجمی الہام اور عربی مخاطب؟ یہ آیت صاف ثبوت ہے۔ اس امر کا کہ الہام الٰہی مخاطبوں کی مادری زبان میں ہوتا ہے۔
آپ کے جواب میں مرزائی ایسے چپ ہوئے کہ گویا انہیں سانپ سونگھ گیا ہے۔ اصل دلیل کا جواب تو نہ دے سکے۔ ہاں حسب عادت خود ومطابق اپنے نبی کی سنت کے مطابق کجروی اختیار کر کے پچھلے انبیاء پر خواہ مخواہ نکتہ آذینی شروع کردی۔ چنانچہ ملک عبدالرحمن مرزائی مناظر نے نہایت گستاخانہ وشوخانہ لہجہ میں عجیب طور پر منہ بنا کر کہا کہ: ’’قرآن مجید میں انسانوں کی بولی کے علاوہ کان کان اور چون چون اور چڑ چڑ کا الہام موجود ہے۔ حضرت سلیمان کہتے ہیں کہ: ’’علمنا منطق الطیر (النمل:)‘‘ خدا نے ہم کو جانوروں کی بولی سکھائی۔
جواب ابراہیمی
مرزائیو! کچھ تو ایمان، انصاف دیانت سے کام لو۔ کہاں یہ امر کہ انبیاء علیہم السلام پر جو الہام لوگوں کی ہدایت کے لئے نازل ہوتا ہے۔ وہ ان کی جانی ہوئی زبان میں ہوتا اور یہ جواب کہ حضرت سلیمان کو خدا نے جانوروں کی بولی ہی سکھلائی۔ ہاں اگر تم قرآن مجید سے یہ ثابت کرتے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کو جو الہام انسانوں کی ہدایت کے لئے ہوتا تھا۔ وہ ان کی جانی ہوئی زبان اور ان کی قومی زبان میں نہ تھا تو البتہ تمہاری دلیل تھی۔ مگر افسوس ہے کہ تم لوگ اس قسم کی مغالطہ بازیوں سے جہلاء کو دھوکہ دیتے ہو۔ پھر یہ بھی غلط ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کو بذریعہ الہام جانوروں کی بولی سکھلائی گئی تھی۔ علمنا کا لفظ الہام کے لئے مخصوص نہیں بلکہ طبعی فہم وتفہیم بھی اس میں داخل ہے۔ سو اﷲتعالیٰ نے حضرت سلیمان علیہ السلام کی فطرت میں اپنی قدرت سے یہ طاقت ودیعت کردی کہ وہ جانوروں کی بولی سمجھنے لگ گئے۔ فافہم وتتدبر!
دوسرے دن یعنی ۲۱؍مارچ کا مناظرہ
دوسرے دن کے مناظرہ میں بھی مثل یوم گذشتہ مدعی جماعت احمدیہ تھی اور معترض اہل اسلام ،مرزائیوں کی طرف سے مولوی محمد سلیم صاحب وملک عبدالرحمن صاحب تھے اور اہل اسلام کی طرف سے مولوی احمد صاحب گکھڑوی اس دن دونوں نشستوں میں زیادہ تر انہی مسائل پر گفتگو ہوئی۔ جن کو ہم نقل کر چکے ہیں۔ کیونکہ آج بھی اثبات ثبوت مرزا ہی زیر بحث تھا۔ ہاں چند ایک نئی باتیں جو زیر بحث آئیں۔ ان کو ذیل میں لکھا جاتا ہے۔ مولوی احمد دین صاحب نے