کے بطن سے صالح اور عمدہ منطق کبھی پیدا نہیں ہوتی۔ اس سے ظہور پذیر ہونے والی چیزیں کیا ہیں؟ جھگڑا، مناقشہ اور بدذوقی یا ایک طرح کا مراق۔ اب یہ فرمائیے! مرزاقادیانی کا سب سے بڑا تحفہ کیا ہے۔ جو انہوں نے ہمیں مرحمت فرمایا۔ یہی ’’مناظرہ‘‘ یعنی پوری قوم لال کتاب ہاتھ میں لئے ایک دنیا سے دست وگریباں ہے۔ حوالہ سے حوالہ اور ورق سے ورق ٹکرا رہا ہے۔ انبیاء کا ورثہ یقینا یہ حقیر چیزیں نہیں ہوسکتیں۔ وہ جو کچھ چھوڑ کر جاتے ہیں۔ وہ ذہنوں کی بالیدگی ہوتی ہے۔ فکر کا سلجھاؤ ہوتا ہے اور عمل کی پاکیزگی۔ مناظرہ، معذرت طلبی اور بحث وجدل کی قیل وقال سے ان کی تبلیغی سطح کہیں بلند ہوتی ہے۔
اﷲ کا معیار انتخاب
انبیاء کو چونکہ دنیامیں اس لئے بھیجا جاتا ہے۔ تاکہ اﷲ کے پیغام کو اس کے ان بندوں تک پہنچادیں۔ جو فکروعمل کی گمراہیوں میں مبتلا ہیں۔ اس لئے انہیں قول وعمل کی وہ تمام جاذبیتیں عطاء کی جاتی ہیں جو نفس دعوت کو مقبول ومحبوب ٹھہرانے کے لئے ضروری ہیں۔ انبیاء کا مبعوث ہونا اﷲ کے انتخاب سے ہے۔ لہٰذا جب وہ کسی بندے کو چنے گا تو اس کا انتخاب کتنا صحیح اور کس درجہ بلند ہوگا۔ اس کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ پہلے انبیاء کی تاریخ پر ایک نظر ڈال لی جائے۔ انہیں روح ومعنی کی تمام خوبیوں سے نوازا گیا۔ قلب ودماغ کی ہر ہر صلاحیت سے بہرہ مند کیاگیا۔ سیرت وعمل کے ہر ہر ظہور سے مشرف فرمایاگیا اور اسوہ وکردار کی ایسی ایسی خصوصیتیں بخشی گئیں۔ جن سے ان کی محبوبیت ودلنوازی میں اور اضافہ ہوگیا۔ انبیاء کی محبوبیت ودلنوازی کی ان تمام اداؤں سے اس مقدار کے ساتھ اس لئے آراستہ کر کے بھیجا جاتا ہے تاکہ کشش وجذب کی یہ کیفیتیں عوام کو ان کا گرویدہ بنا دیں اور یہ اﷲ کے پیغام کو زیادہ کامیابی کے ساتھ دل کی گہرائیوں میں اتاردیں۔ یوں تو نبوت کے بے شمار فیوض اور ظہورات ہیں۔ لیکن ایک فیض یا ظہور ایسا ہے جس کا نبوت سے بڑا قریبی تعلق ہے اور وہ ہے حسن بیان، گفتگو اور اظہار مدعا کا صحیح مذاق، تحریر وادب کی سحر طراز چاشنی یا فصاحت وبلاغت کی معجزانہ صلاحیتیں۔ فصاحت وبلاغت کی تعریف میں اہل فن نے بڑی بڑی موشگافیاں کی ہیں۔ آپ اختصار کے ساتھ یوں سمجھ لیجئے کہ حسین ترین معنی اگر حسین تر جامہ لفظی اختیار کرلیتا ہے تو اس کا نام فصاحت ہے اور انبیاء کے درجہ فصاحت پر یوں غور فرمائیے کہ انہیں جو کلام دیا جاتا ہے اس میں براہ راست اس اخلاق حسن وخوبی کی بخششوں کو دخل ہے جس کی ہلکی سی توجہ سے یہ سارا گلستان وجود مہک رہا ہے۔ عہد نامہ جدید وقدیم بڑی حدتک محرف ہے۔ مگر آج بھی دائود کا زبور پڑھو۔ سلیمان کے امثال سنو۔ موسیٰ کے مواعظ پر غور کرو۔ جوبائبل میں کئی