اور (اسی صفحہ حوالہ مذکورہ، خزائن ج۱۹ ص۵۰) پر آگے چل کر لکھتے ہیں کہ: ’’پھر مریم کو جو مراد اس عاجز سے ہے دردزہ تنہ کھجور کی طرف لے آئی۔‘‘
زبان کے لحاظ سے درد کو مؤنث لکھنا شاید ’’اعجاز خداوندی‘‘ ہو۔ لیکن تمام مراحل حمل کے موجود ہونے پر دعویٰ فرزند خدا کو معنوی تسلیم کرلینا ایک لقمہ ہے۔ جس کو مجھ ایسے گنہگار بھی آسانی سے نگل نہیں سکتے۔
قسط پنجم
پس تحریک قادیان کے خلاف میری
چوتھی دلیل یہ کہ مرزاقادیانی نے فرزند خدا ہونے کا دعویٰ کیا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اسلام اس بات کی اجازت نہیں دتیا کہ مخلوق خدا میں سے کسی کو ’’بداہتہً، صراحتاً، کنایتہ، اشارتاً، یا استعارتہً‘‘ خدا کا بیٹا مانا جائے۔ اس معاملہ میں تو اﷲتعالیٰ کو یہ بھی گوارا نہیں کہ اس کے پیغمبر محترمﷺ کو بھی کوئی مرد اپنا باپ بنائے یا سمجھے اور جب کسی مرد کا رسول خدا کو اپنا باپ سمجھنا بھی خدائے برتروتوانا کو گوارا نہیں تو خدا تعالیٰ کو باپ کہنے اور سمجھنے والے کے لئے اسلام کے وسیع حلقہ میں داخلہ کی گنجائش کہاں باقی رہ جاتی ہے۔ چنانچہ قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے کہ: ’’محمد تم مردوں میں سے کسی ایک کا بھی باپ نہیں ہے۔ بلکہ وہ خدا کا بھیجا ہوا رسول اور خاتم النبیین ہے۔‘‘
پانچویں دلیل
مرزاقادیانی کے ان دعاوی پر نظر دوڑائیے۔ جن کو میں نے قسط سوم میں جمع کردیا ہے۔ ان میں ایک دعویٰ الوہیت کا بھی ہے۔ یعنی آپ کو خود خدا ہونے کا دعویٰ ہے میں اس دعویٰ کے متعلق کچھ لکھ کر عامتہ المسلمین کی فراست ودانش کی ہتک کرنا نہیں چاہتا۔ بلکہ جیسے کہ میں عرض کرچکا ہوں۔میری سمجھ کے مطابق قرآن پاک کی تعلیم ہرگز اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ استعارۃً وکنایتہ بھی کسی مخلوق کوخالق تسلیم کیا جائے۔ کیا فنافی اﷲ کے بہانہ سے کسی کو اﷲ ماننے والے، فنافی الرسول کو رسول خدا مان لیںگے؟ اور اگر ایسا ہوتو خدا اور رسول ہونے کے مدعی صاحبان کی تعداد شاید ہزاروں سے بھی متجاوز ہوجائے۔ پس مرزاقادیانی کے دعاوی کو تسلیم کرنے سے مجھے اس لئے بھی انکار ہے کہ ان کے دعاوی میں الوہیت کا دعویٰ بھی موجود ہے۔