کی طرف منسوب ہیں وہ سب غلط ہیں اور ان امور کا غلط اور افتراء ہونا مرزاقادیانی کے نزدیک بالکل اور ثابت ہے۔ پھر باوجود اس علم اور بصیرت کے حضرت یسوع کے نفس الامری وجود سے انکار کرتے ہوئے فرضی قرار دے کر انہیں گالیاں دینا اور طعن وتشنیع کا مورد بنانا کس قدر واجب الاحترام حضرات انبیاء علیم السلام کے وقار وعظمت اور شرف علو مرتبت کا استخفاف اور استحقار ہے اور بہت بڑے فتنہ کا فتح الباب ہے اور ہرزندیق اور بے دین کے لئے ایک ایسا حربہ ہے کہ وہ جب چاہے قوم کی روایات کی بناء پر خداتعالیٰ کے اپنے پیارے بندوں اور مقرب رسولوں کو اسی تاویل وتوجیہ کی بناء پر ناپاک الزام کا نشانہ بنائے۔ مرزاقادیانی (تحفہ قیصریہ ص۸، خزائن ج۱۲ ص۲۶۰) میں قوموں کے نبیوں کو برا بھلا کہنے والوں کو صلح کاری اور امن کا دشمن قرار دیتے ہیں اور قوموں کے بزرگوں کو گالی نکالنا فتنہ انگیزی بتلاتے ہیں۔
جس یسوع کے متعلق عیسائیوں کے یہ اقوال ہیں۔ وہی یسوع عیسائیوں کا پیغمبر ہے۔ مرزاقادیانی اپنی اس افترائی تاویل پر بھی عیسائی قوم کے نبی کو گالی دے رہے ہیں۔ جس کو وہ فتنہ انگیزی کہہ چکے ہیں۔
مرزائیوں کا جواب ثانی
مرزائی جماعت ایک یہ جواب بھی دیا کرتی ہے کہ مرزاقادیانی نے جو کچھ حضرت مسیح کے متعلق کہا ہے وہ بطور الزام کے عیسائیوں پر پیش کیا ہے۔ چنانچہ مولوی جلال الدین شمس اپنی کتاب (مقدمہ بہاولپور ص۱۴۱) میں لکھتے ہیں۔ ’’پس متکلمین کا یہ طریق ہے کہ مدمقابل کے عقائد کو مدنظر رکھ کر الزامی جواب دیا کرتے ہیں اور یہی طریق حضرت مسیح موعود نے اختیار کیا۔‘‘ چنانچہ فرمایا: ’’اس بات کو یاد رکھیں کہ عیسائی مذہب کے ذکر میں ہمیں اسی طرز سے کلام کرنا ضروری تھا۔ جیسا کہ وہ ہمارے مقابل کرتے ہیں۔‘‘ (الخ آریہ دھرم ٹائٹل پیج آخر)
جواب الجواب الثانی
الزامی جواب یہ ہوتا ہے کہ مخاطب کے مسلمات کو اس پر بطور حجت کے اس طریق سے پیش کئے جاتے ہیں کہ اسلوب بیان اور قرآئن سے معلوم ظاہر ہوتا ہے کہ یہ متکلم کے مسلمات اور عقائد نہیں۔ محض مخاطب کو اس کے مسلمات کی بناء پر الزام دینا مقصود ہے۔ مگر مرزاقادیانی کی تحریرات الزامی جوابات پر بوجوہ ذیل محمول نہیں ہوسکتی۔
۱… مرزاقادیانی نے جو استخفاف اور تحقیر حضرت عیسیٰ علیہم السلام کے متعلق