شائع ہوتی رہیں۔ اس کی مہربانی سے مرزاقادیانی ملت کے غیظ وغضب سے محروم رہے۔ مرزاقادیانی اپنے فرقے کا تعارف کراتے ہیں:
’’یہ وہ فرقہ ہے جو فرقہ احمدیہ کے نام سے مشہور ہے اور پنجاب اور ہندوستان اور دیگر متفرق مقامات میں پھیلا ہوا ہے۔ یہی وہ فرقہ ہے جو دن رات کوشش کر رہا ہے کہ مسلمانوں کے خیالات میں سے جہاد کی بیہودہ رسم کو اٹھا دے۔ چنانچہ اب تک ساٹھ کے قریب میں نے ایسی کتابیں عربی، فارسی، اردو اور انگریزی میں تالیف کر کے شائع کی ہیں۔ جن کا یہی مقصد ہے کہ یہ غلط خیالات مسلمانوں کے دلوں سے محو ہوجائیں۔ اس قوم میں یہ خرابی اکثر نادان مولویوں نے ڈال رکھی ہے۔ لیکن اگر خدا نے چاہا تو امید رکھتا ہوں کہ عنقریب اس کی اصلاح ہو جائے گی۔‘‘
(قادیانی رسالہ ریویو آف ریلیجنز ج۱ ش۱۲ ص۴۹۵، نومبر۱۹۰۲ئ)
انگریز کی سرپرستی اور اس کی عنایات کا اعتراف خود مرزاقادیانی نے بارہا اپنی تحریروں میں کیا بلکہ اس بات کو فخریہ انداز میں پیش کیا کہ میں انگریز کا خود کاشتہ پودا ہوں۔
’’صرف یہ التماس ہے کہ سرکار دولت مدار ایسے خاندان کی نسبت جس کو پچاس سال کے متواتر تجربہ سے ایک وفادار جانثار خاندان ثابت کرچکی ہے اور جس کی نسبت گورنمنٹ عالیہ کے معزز حکام نے ہمیشہ مستحکم رائے سے اپنی چٹھیات میں یہ گواہی دی ہے کہ وہ قدیم سے سرکار انگریزی کے پکے خیرخواہ اور خدمت گزار ہیں۔ اس خود کاشتہ پودا کی نسبت نہایت حزم اور احتیاط اور تحقیق اور توجہ سے کام لے اور اپنے ماتحت حکام کو اشارہ فرمائے کہ وہ بھی اس خاندان کی ثابت شدہ وفاداری اور اخلاص کا لحاظ رکھ کر مجھے اور میری جماعت کو ایک خاص عنایت اور مہربانی کی نظر سے دیکھیں۔‘‘
انگریز کے فوائد
قادیانیوں اور انگریز کی اس باہمی سودے بازی سے انگریز نے مندرجہ ذیل فائدے اٹھائے۔
۱… ملت میں انتشار اور گروہ بندی کا آغاز کیا اور امت کے افراد کی تمام تر توجہ اندرونی دشمنوں سے لڑنے پر مبذول کرادی۔ اس طرح انگریز کے مقابلے میں وہ مؤثر قوت فراہم نہ ہوسکی جس سے ہم سو سال پہلے ہی غلامی کی زنجیروں کو توڑ سکتے تھے۔
۲… جذبۂ جہاد ختم کرانے کے لئے قادیانی جھوٹے نبی کو استعمال کیا۔ اگرچہ یہ جذبہ ختم تو نہ ہوسکا تاہم اس مسئلے پر مرزاقادیانی نے حتی المقدور ہاتھ پاؤں مارے۔ جس کا حال ہم اس کی اپنی تحریروں سے پیش کرچکے ہیں۔
۳… اندرون ملک اور بیرون ملک قادیانیوں سے جاسوسی کا کام لیاگیا۔