گالیوں کی زد میں حضرت قائداعظمؒ سے لے کر قائد عوام تک ہر مسلمان شامل ہے۔ اس میں صدارتوں اور وزارتوں کاحلف اٹھانے والے حکمران بھی شامل ہیں۔ جن کے حلف میں ختم نبوت پر اعتقاد ضروری قرار دیاگیا ہے۔ مرزائیوں کی طرف سے آنے والے یہ گولے صرف علماء کے گھروں میں ہی نہیں گررہے۔ ان کی توپوں کا رخ ہرمسلمان کی طرف ہے۔ ختم نبوت پر اعتقاد رکھنے والے ہر فرد کی طرف ہے اور مرزائیوں کو سرکاری چھتری تلے تحفظ دینے والے حکمرانوں کی طرف بھی ہے۔ یہ لمحۂ فکریہ ہے جس میں ہر فرد کو سوچنا ہے کہ اس کا طرز عمل کیا ہے اور مرزائیوں کی اس کے بارے میں رائے کیا ہے۔
عملی ثبوت
مسلمانوں کو کافر سمجھنے کا مسئلہ مرزائیوں نے صرف تحریر تک محدود نہیں رکھا۔ بلکہ اپنے عمل کے ساتھ ثابت کیا کہ وہ مسلمانوں کو کافر سمجھتے ہیں اور ہر ایسے شخص کو دائرہ اسلام سے خارج خیال کرتے ہیں جو مرزاغلام احمد کو نبی تسلیم نہیں کرتا۔
ہم عیسائیوں کو کافر سمجھتے ہیں تو ان کے گرجوں میں عبادت کے لئے نہیں جاتے۔ ان سے شادی بیاہ نہیں کرتے۔ ان کا کوئی فرد مرجائے تو ان کی مذہبی رسومات میں شرکت نہیں کرتے۔ ہم ہندوؤں کو کافرسمجھتے ہیں تو ان کے مندروں کا رخ نہیں کرتے۔ ان کی عبادت میں شریک نہیں ہوتے۔ ان کو اپنی لڑکیاں نہیں دیتے۔ ان کی شمشان بھومی پر حاضری نہیں دیتے۔ اسی طرح ہم قادیانیوں کو کافر سمجھتے ہیں تو ان کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے اور ان کے ساتھ شادی بیاہ کے تعلقات استوار نہیں کرتے۔ کیونکہ یہی چیزیں ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ کوئی گروہ دوسرے گروہ کے بارے میں کیا رائے رکھتا ہے۔اب جو حضرات قادیانی گروہ کو بھی مسلمانوں کا ہی ایک گروہ سمجھتے ہیں۔ انہیں چاہئے کہ ذرا اسی معیار پر قادیانیوں کو دیکھ لیں۔
نماز کا معاملہ
قادیانیوں کو اس بات کی ممانعت ہے کہ وہ مسلمانوں کے پیچھے نماز پڑھیں۔ چنانچہ مرزاغلام احمد نے کہا: ’’صبر کرو اور اپنی جماعت کے غیر کے پیچھے نماز مت پڑھو۔ بہتری اور نیکی اس میں ہے اور اسی میں تمہاری نصرت اور فتح عظیم ہے۔‘‘
(اخبار الحکم قادیان ج۵ ش۲۹ ص۳، مورخہ ۱۰؍اگست ۱۹۰۱ئ)