پانی بھراکرتا تھا۔ وہ ایک ناگہانی موت سے مرگیا اور اسی دن اس کی شآدی تھی۔ اس کی موت پر آپ نے فرمایا کہ مجھے خیال آیا کہ: ’’قتل خیبۃ وزید ہیبۃ‘‘ جو وحی ہوئی تھی۔ وہ اسی کی طرف اشارہ ہے۔‘‘
نوٹ معماری
اصل الہام اور اس کے ترجمہ سے صاف عیاں ہے کہ یہ کسی بدارادہ مخالف کے متعلق تھا۔ لہٰذا اسے گھر کے ماشکی پر لگانا سوائے دفع الوقتی کے کچھ معنی نہیں رکھتا۔ آگے ملاحظہ ہو۔
پراز مغالطہ کارروائی
اس واقعہ کے قریباً سات ماہ بعد جب کہ مرزاقادیانی کے دو مرید کابل میں قتل ہوچکے تھے۔ مرزاقادیانی نے ان کی موت کو اپنا معجزہ بنانے کے لئے منجملہ کئی ایک جھوٹے الہاموں کے یہ بھی پیش کردیا کہ: ’’اس سے پہلے ایک صریح وحی الٰہی صاحب زادہ مولوی عبداللطیف کی نسبت ہوئی۔ جب کہ وہ زندہ تھے۔ بلکہ قادیان میں موجود تھے۔ وہ یہ ہے قتل خیبۃ وزید ہیبۃ‘‘
(تذکرۃ الشہادتین ص۷۳ حاشیہ، خزائن ج۲۰ ص۷۵)
نوٹ: اس مضمون کو (حقیقت الوحی ص۲۶۳، خزائن ج۲۲ ص۲۷۴) پر بھی بطور نشان صداقت درج کیا ہے۔
قارئین کرام! ملاحظہ فرمائیں کہ یہ پیش گوئی گھڑتے وقت تو کوئی تعیّن نہ کی۔ بلکہ مخالفوں کے بارے میں اسے ظاہر کیا۔ اس کے بعد ایک بے ضرر غریب سقہ فوت ہوا تو یہ سوچ کر کہ کہیں ہمارا الہام یونہی بے مصداق برباد نہ ہوجائے۔ اسی پر لگادیا۔ مگر چند ہی ماہ بعد سابقہ بیانوں پر بکمال صفائی جھاڑو پھیر کر اپنی غیب دانی کے ثبوت میں کابلی مقتولوں کو مصداق بنادیا کیا سچ ہے۔
بدوزد طمع دیدۂ ہوشمند
الہامی دوکان کی چوتھی بوتل
یکم؍جون ۱۹۰۴ء کو مرزاقادیانی نے حسب عادت کئی ایک گول مول فقرات بنام الہام سنائے۔ ان میں ایک یہ بھی تھا۔ ’’عفت الدیار محلہا ومقامہا‘‘
یہ الہام اخبار الحکم ۳۱؍مئی ۱۹۰۴ء کے ص۹ کالم۴ پر درج ہے۔ اس کے آگے خطوط وحدانی کے اندر مرقوم ہے۔ (متعلقہ طاعون) اس کے سوا اور کوئی لفظ اس کی تشریح میں نہیں۔ نہ تو اس کا ترجمہ ہی کیا ہے اور نہ ہی یہ بتایا کہ یہ کسی آئندہ پڑنے والی طاعون کی بیماری کے بارے میں