قادیانیوں نے حیفا ۱؎ میں اپنا مرکز قائم کیا۔ اسی مرکز سے وہ اپنے تبلیغی مشن عرب شہروں میں بھیجتے ہیں۔ جب سے حکومت برطانیہ حیفا سے دستبردار ہوئی۔ قادیانیوں کو اسرائیلی علم کے زیر سایہ امن وسلامتی اور خصوصی سرپرستی حاصل ہوئی اور تاحال حیفا شہر میں ان کا مرکز قائم ہے۔ جہاں سے وہ فلسطین میں داخل ہوتے ہیں اور عرب شہروں میں جا نکلتے ہیں۔‘‘
قادیانیوں کی جاسوسی
اور ہم پورے صراحت سے کہتے ہیں کہ قادیانیوں سے نرمی اور اغماض کا انجام بڑا خوفناک ہوگا۔ پہلی عالمگیر جنگ میں جاسوسی سے ان کا تعلق رہا ہے۔ جیسا کہ ولی اﷲ زین العابدین نامی ایک معروف قادیانی انگریزی فوج سے فرار ہوا اور دعویٰ کیا کہ میں مملکت عثمانیہ کا پناہ گزین اور اسلامی حمیت کا حامل ہوں۔
اس طرح اس نے عثمانی ترکوں کو دھوکا میں رکھا۔ پانچویں بریگیڈ کے سالا رجمال پاشا نے اسے خوش آمدید کہا اور ۱۹۱۷ء میں قدس شہر کے صلاحیہ کالج میں تاریخ ادیان کا لیکچرار مقرر کیا اور جب برطانوی فوج دمشق میں داخل ہوئی تو ولی اﷲ زین العابدین عثمانیوں سے بھاگ کر انگریز فوج سے جا ملا۔‘‘ (ترجمہ از القادیانیہ ص۱۲،۱۴)
اسرائیل کی یہ وہ خدمت ہے جو قادیانی گروہ انجام دے رہا ہے۔ جس کے سبب اکثر عرب ممالک نے اپنے ہاں ان کا داخلہ ممنوع قرار دیا ہے۔ یہ چگی داڑھیوں اور اسلام کے ظاہری روپ کے ساتھ عربی بولتے ہوئے عرب معاشرے میں داخل ہوتے ہیں اور اپنی سازشوں کے جال پھیلاتے ہیں۔ اسرائیل کی خدمت انجام دیتے ہیں اور یہودی مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔ انگریزوں کی طرح یہودیوںنے بھی قادیانیوں کو اپنی سازش کا آلۂ کار صرف اس لئے بنایا کہ قادیانی جہاد کے مخالف ہیں اور یہودی امت مسلمہ سے جہاد کی روح ختم کرنا چاہتے ہیں۔ مرزاغلام احمد قادیانی بڑے فخر سے کہتے ہیں۔
’’یاد رہے کہ مسلمانوں کے فرقوں میں سے یہ فرقہ جس کا خدا نے مجھے امام اور پیشوا اور رہبر مقرر فرمایا ہے۔ ایک بڑا امتیازی نشان اپنے ساتھ رکھتا ہے اور وہ یہ کہ اس فرقہ میں تلوار کا جہاد
۱؎ بہائی جو بہاء اﷲ کو مسیح موعود کہتے ہیں۔ ان کا مرکز بھی عسکہ (متصل حیفا) اسرائیل میں ہے۔ یہ بڑا غور طلب مسئلہ ہے کہ پاکستانی مسیح کا مرکز بھی اسرائیل میں اور ایرانی مسیح کا بھی اسرائیل میں اور اسرائیلی یہودیوں کی ریاست ہے۔ یعنی ان دونوں گروہوں سے مسلمانوں میںانتشار پیدا کرنے کا کام یہودی لے رہے ہیں۔