۲۰…عجیب ترین دعویٰ
لیکن سب سے عجیب دعویٰ وہ ہے جو (البشریٰ ج دوم ص۱۱۸) پر یوں درج ہے۔ ’’امین الملک جے سنگھ بہادر‘‘ دعاوی کی تو انتہاء نہیں۔ کہاں تک لکھتا چلا جاؤں۔ اب انسان عقیدہ لائے تو کس دعویٰ پر۔
قسط چہارم
اختصار کے ساتھ اور شدید انتخاب کے بعد میں نے مرزاقادیانی کے بیس دعاوی گنوائے ہیں۔ ان دعاوی میں سے جن کا تعلق اوتار یا کرشن وغیرہ سے ہے۔ ان کے متعلق مجھے جو کچھ عرض کرنا ہے وہ میں کسی آئندہ قسط میں ناظرین کرام کے گوش گذار کروںگا۔ خدا اور فرزند خدا ہونے کے متعلق آپ کے دعاوی ایسے ہیں کہ ان کے خلاف اگر تفصیلی بحث کی جائے تو برسوں یہ سلسلہ جاری رہ سکتا ہے۔ اس لئے کہ توحید باری تعالیٰ اسلام کا اصل الاصول ہے اور قرآن پاک تولید وولادت حق عزاسمہ کے خلاف دلائل سے بھرا پڑا ہے۔ میں جانتاہوں کہ مرزاقادیانی کے عقیدت مند عوام کو مرزاقادیانی کے ان دعاوی سے آگاہ تک نہیں کرتے۔ لوگوں کو ایک مجدد اور خادم دین محمد ﷺ کی بیعت کے لئے دعوت دی جاتی ہے اورجب فریب خوردہ انسان عقل کو کھو بیٹھتا ہے تو اس کے لئے ایسے خلاف عقل دعاوی کے متعلق ان توضیحات کو تسلیم کر لینا کوئی بڑی بات نہیں ہوتی جو ایک دانش مند کے لئے لایعنی ہوتی ہیں۔ کسی مسلمان سے بلا تکلف وبلا اطلاع پوچھ کر دیکھ لیجئے کہ کیا تم تسلیم کرسکتے ہو کہ اﷲتعالیٰ کسی سے پیدا ہوا یا کسی کو اس کی فرزندی کا رتبہ حاصل ہے تو وہ معاذ اﷲ کہہ کر ایسے کلمات کے سننے تک سے انکارکر دے گا۔ مگر عقیدت وہ شئے ہے کہ جہاں ایک دفعہ یہ جذبہ پیدا ہوا۔ موحد ترین انسان اپنے پیر کی ہر خلاف شرع حرکت کو عین شریعت سمجھتا اور اپنے مرشد کے کفر نواز کلمات کو توحید کی دلیل واضح گردانتا ہے۔
برادران قادیان! کہیں گے اور اس کے سوا اور کہہ بھی کیا سکتے ہیں کہ یہ باتیں رازونیاز کی ہیں۔ جو شخص فنافی اﷲ ہوچکا وہ خود کو فرزند خدا سمجھنے لگے تو کیا۔ لیکن یہ شریعت نہیں۔ حضرت منصور نے دعویٰ ’’انا الحق‘‘ کیا، تو شریعت نے ان کی کھال کھینچ دی۔ قرآن الحکیم کی تعلیم کی رو سے ایسا دعویٰ خارج از اسلام ہے اور ایک نبی کے لئے وہ گفتگو شایان شان نہیں جو کسی مجذوب کی زبان پر جاری ہوسکتی ہو۔
اور یوں عیسائیوں سے بھی پوچھ لیجئے وہ کہیں گے کہ: ’’ابتداء میں کلام تھا۔ کلام خدا کے ساتھ تھا کلام خدا تھا۔‘‘