۔ آنحضرتﷺ کو زانی لکھا ہے اور اس کے علاوہ اور بہت سے گالیاں دی ہیں۔ پس اسی طرح اس مردار اور خبیث فرقہ نے جو مردہ پرست ہیں۔ ہمیں اس بات پر مجبور کر دیا ہے کہ ہم بھی ان کے یسوع کے کچھ حال لکھیں۔‘‘ (ضمیمہ انجام آتھم ص۸،۹، خزائن ج۱۱ ص۲۹۲،۲۹۳)
اسی صفحہ کے حاشیہ پر لکھا ہے کہ: ’’اگر پادری اب بھی اپنی پالیسی بدل لیں اور عہد کر لیں کہ آئندہ ہمارے نبیﷺ کو گالیاں نہیں نکالیںگے تو ہم بھی عہد کریںگے کہ آئندہ نرم الفاظ کے ساتھ ان سے گفتگو ہوگی۔ ورنہ جو کچھ کہیںگے اس کا جواب سنیںگے۔‘‘
جواب الجواب الثالث
یہ جواب بھی بوجہ ذیل بالکل غلط اور بیہودہ ہے۔ ۱… یہ طریق جواب اسلامی کے سراسر خلاف ہے۔ کیونکہ اسلام کی مقدس تعلیم تمام انبیاء علیہم السلام کی تعظیم وتکریم سکھلاتی ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی توہین وتحقیر اگر عیسائیوں پر شاق ہے تو کیا مسلمانوں کے دلوں میں غیض وغضب پیدا نہیں کرتی۔ اگر پادریوں نے ازراہ سفاہت ونادانی حضورﷺ کی شان عالی میں بدزبانی کر کے دنیا وآخرت کا خذلان وخسران حاصل کیا تو کسی مسلمان کے لئے یہ کیونکر جائز ہوسکتا ہے کہ وہ بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شان میں بدزبانی کر کے ویسا ہی خسران اور خذلان حاصل کرے۔
۲… مرزاقادیانی بھی اس طریق مقابلہ کو سفیہانہ اور جاہلانہ حرکت قرار دیتے ہیں۔ چنانچہ مرزاقادیانی اشتہار تبلیغ حق (مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۵۴۴) پر لکھتے ہیں۔ ’’واضح ہو کہ کسی شخص کے ایک کارڈ کے ذریعہ مجھے اطلاع ملی ہے کہ بعض نادان آدمی جو اپنے تئیں میری جماعت کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ حضرت امام حسینؓ کی نسبت یہ کلمات منہ پر لاتے ہیں کہ حسینؓ نعوذ باﷲ بوجہ اس کے کہ اس نے خلیفہ وقت یعنی یزید سے بیعت نہیں کی۔ باغی تھا اور یزید حق پر تھا۔ ’’لعنۃ اﷲ علی الکاذبین‘‘ مجھے امید نہیں کہ میری جماعت کے کسی راست باز کے منہ سے ایسے خبیث الفاظ لکھے ہوں۔ مگر ساتھ مجھے یہ بھی دل میں خیال گذرتا ہے کہ چونکہ اکثر شیعہ نے اپنے وردقبریٰ اور لعن وطعنی میں مجھے بھی شریک کرلیا ہے۔ اس لئے کچھ تعجب نہیں کہ کسی نادان بے تمیز نے سفیہانہ بات کے جواب میں سفیہانہ بات کہہ دی ہو۔ جیسا کہ بعض جاہل مسلمان کسی عیسائی کی بدزبانی کے مقابل میں جو آنحضرتﷺ کی شان میں کرتا ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت کچھ سخت الفاظ کہہ دیتے ہیں۔‘‘