ہے۔ تاہم جب نبوت سے سرفراز کرنے کا ذکر آتا ہے تو قرآن دونوں کی شخصیت کو الگ الگ اور جداجدا قرار دیتا ہے۔ ’’واٰتینہما الکتب المستبین‘‘ {ہم نے ان دونوں کو کھلی اور واضح کتاب عطاء کی۔}
ظلی نبوت کا تصور کیونکر پیدا ہوا
ظلی وبروزی کا یہ غیر قرآنی تصور جس میں ایک نبی تو اصلی اور حقیقی ہو اور دوسرا بالتبع، بالکل ضمنی اور تابع قرار پائے۔ اصل میں مرزاقادیانی کے ذہن میں تصوف کی راہوں سے آیا اور بائبل کے مطالعہ نے اس کی مزید تائید فراہم کی۔ چنانچہ یہ واقعہ ہے کہ جن لوگوں نے عہد نامہ قدیم میں انبیاء کو کارواں درکارواں، ایک ہی زمانہ میں اور ایک ہی قوم میں تبلیغ واشاعت کے کام میںمصروف دیکھا ہے۔ انہیں حیرت ہوتی ہے کہ یہ کیا معاملہ ہے۔ کیا یہ محض اس کی بخشش کی ارزانیاں ہیں۔ یا یہ بات ہے کہ ان قوموں سے اﷲتعالیٰ کو زیادہ محبت تھی۔ اس ضمن میںیہ نکتہ نہ بھولئے کہ یہیں سے ایک جذباتی سی خواہش دلوں میں یوں ابھری کہ امت محمدیہ تو آنحضرتﷺ کے بعد ایک پیغمبر کو ترس ترس جائے اور ان قوموں پر یہ عنایت ہو کہ انوار وبرکات کی ایک بھیڑ موجود ہے جو دلوں کی صفائی اور کیرکٹر کی ستھرائی میں لگی ہے۔ پھر اس کی توجیہ ذہن میں یہ آئی کہ اصل میں اسی پوری جماعت میں حقیقی پیغمبر تو ایک ہی ہوتا تھا۔ باقی ان کے نائب اور تابع ہوتے تھے۔ جنہیں اطاعت وریاضت کی کثرت کے پیش نظر ضمناً منصب نبوت سے سرفراز کیاجاتا۔ لہٰذا امت محمدیہ میں بھی یہ گنجائش رہنا چاہئے کہ اس میں بھی بے شمارلوگ اپنی نیکی وپارسائی کی وجہ سے نبی کہلائیں اور امت کی اصلاح پر مامور ہوں۔ یہ ہے وہ نفسیاتی خاکہ جو مرزاقادیانی کے ذہن میں پیدا ہوا اور ظلی نبوت کا محرک بنا۔ حالانکہ اہل علم جانتے ہیں کہ بنی اسرائیل میں نبوت کا تصور اس تصور سے کوئی میل نہیں کھاتا۔ جو قرآن کے سامنے ہے۔ کیونکہ اس میں اتنی لچک ہے کہ علماء پر بھی انبیاء کا اطلاق ہوسکے۔
بائبل میں نبوت کا تصور
بات یہ ہے کہ بنی اسرائیل میں جب دینی جذبہ کی بدرجہ غایت کمی ہوئی اور لوگ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات کو قریب قریب بھول گئے تو حضرت صموئیل علیہ السلام نے احیاء دین کی غرض سے ’’الرامۃ‘‘ میں عظیم الشان تبلیغی مدرسہ قائم کیا اور ان لوگوںکو جنہوں نے یہاں تعلیم پائی اور اپنے کو تبلیغی خدمات کے لئے وقف کیا ’’انبیاء کے بیٹے‘‘ قرار دیا۔ پھر اسی طرح کے اور مدرسے بھی بیت ایل، ریحا اور جلجال میں قائم ہوئے۔ ان میں طلبہ کو تبلیغ واشاعت کے