’’نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم وعلیٰ وآلہ واصحابہ اجمعین۰ اما بعد!‘‘
برطانوی سازش
اب اس حقیقت کی وضاحت کے لئے کسی دلیل کی ضرورت نہیں کہ قادیانی صرف ایک مذہبی فرقہ ہی نہیں ایک سیاسی گروہ بھی ہیں۔ جسے انگریز کی ضرورتوں نے جنم دیا۔ انگریز مسلمانوں میں سے جذبۂ جہاد ختم کرنا چاہتا تھا۔ چنانچہ اس کے ذہن رسانے ایک نئی نبوت کو جنم دیا۔ جیسا کہ ایک برطانوی دستاویز ’’دی آرائیول آف برٹش ایمپائر ان انڈیا‘‘ (برطانوی حکمرانوں کا ہندوستان میں ورود) میں درج ہے کہ ۱۸۶۹ء میں انگلینڈ سے برطانوی مدیروں اور مسیحی راہنماؤں کا ایک وفد ہندوستان آیا۔ اس وفد کے مقاصد میں یہ جائزہ شامل تھا کہ ہندوستانی باشندوں میں انگریزی اقتدار کی راہیں کیسے ہموار کی جاسکتی ہیں اور مسلمانوں کو کیسے وفاداری پر مجبور کیا جاسکتا ہے۔ چنانچہ اس وفد نے جو رپورٹ پیش کی اس میں اس مسئلے کا حل تجویز کیاگیا کہ: ’’ہندوستانی مسلمانوں کی اکثریت اپنے روحانی راہنماؤں کی اندھادھند پیروکار ہے۔ اگر اس وقت ہمیں کوئی ایسا آدمی مل جائے جو اپاسٹیالک پرافٹ (حواری نبی) ہونے کا دعویٰ کرے تو بہت سے لوگ اس کے گرد اکٹھے ہوجائیںگے۔ لیکن مسلمانوں میں سے ایسے کسی شخص کو ترغیب دینا مشکل نظر آتا ہے۔ یہ مسئلہ حل ہو جائے تو پھر ایسے شخص کی نبوت کو حکومت کی سرپرستی میں بطریق احسن پروان چڑھایا جاسکتا اور کام لیا جاسکتا ہے۔ اب جب کہ ہم پورے ہندوستان پر قابض ہیں تو ہمیں ہندوستانی عوام اور مسلمان جمہور کی داخلی بے چینی اور باہمی انتشار کو ہوا دینے کے لئے اسی قسم کے عمل کی ضرورت ہے۔‘‘
جہاد کی مخالفت
مرزاغلا احمد قادیانی کی نبوت نے انگریزی کی اسی ضرورت سے جنم لیا اور پھر اس گروہ نے انگریز کی وفاداری میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا۔ ان تمام مقاصد کو پورا کیا جن کے لئے انگریز نے انہیں جنم دیا۔ جہاد کے خلاف کتابیں لکھیں۔ انہیں ان ممالک میں پہنچایا جو برطانوی استعمار کا شکار تھے اور جہاں کے مسلمان جذبۂ جہاد سے لبریز ہوکر انگریز کے خلاف علم جہاد بلند کئے ہوئے تھے۔ مرزاغلام احمد قادیانی خود لکھتے ہیں۔ ’’میری عمر کا اکثر حصہ اس سلطنت انگریزی کی تائید اور حمایت میں گذرا ہے اور میں نے ممانعت جہاد اور انگریزی اطاعت کے بارہ میں اس قدر کتابیں لکھی ہیں کہ اکٹھی کی جائیں تو پچاس الماریاں ان سے بھر سکتی ہیں۔ میں نے ان کتابوں