آدھ گھنٹہ ضائع ہونے کی وجہ سے دوسری نشست میں بھی آخری تقریر مرزائیوں کی ہی بنتی تھی۔ اس لئے اس پر جھگڑا ہوا۔ آخر مرزائیوں کے پریزیڈنٹ جناب عطاء اﷲ خان صاحب وکیل نواںشہر نے اپنے طور پر حساب لگا کر اعلان کیا کہ اچھا یہ مناظرہ ۲بجے سے شروع ہوکر ساڑھے چار پر ختم ہوجائے۔ ہمیں منظور ہے۔
کہنے کو تو کہہ گئے مگربعد میں جب خبر ہوئی کہ اس سے آخری تقریر پھر اہل اسلام ہی کی ہوگی تو باوجودیکہ مناظر اسلام تقریر شروع کرچکا تھا پھر شور مچا دیا کہ نہیں ہم کو یہ منظور نہیں۔ ہمارے کہنے کا یہ مطلب تھا کہ دو بجے سے شروع کر کے ۵بجے تک مناظرہ ہوگا۔ اس پر پھر جھگڑا شروع ہوا۔ بآخر افسران پولیس نے حسب معمول دخل دے کر یہ تجویز پیش کی کہ قرعہ ڈال لو جسے مرزائیوں نے یہ کہہ کر کہ ’’یہ جواء ہے جو ہمارے مذہب میں حرام ہے‘‘ مسترد کردیا۔ اگرچہ قرعہ کو جواء کہنا مرزائیوں کی جہالت کی دلیل ہے۔تاہم پولیس افسران نے اسے چھوڑ کر دوسری تجویز پیش کی کہ ہر فریق کے دو دو آدمی ایک جگہ بیٹھ کر سمجھوتہ کر لیں۔ یہ تجویز منظور ہوکر اس پر عمل ہوا۔ چونکہ مرزائی سراسر ناحق پر تھے۔ اس لئے باوجود بڑے ہوشیار وچالاک کہلانے کے پھر پھنس گئے۔ اپنے حساب میں تو وہ آخری تقریر اپنی گن کر اٹھے تھے۔ مگر ہوگئی اہل اسلام کی سچ ہے الحق یعلوا ولا یعلیٰ۔
۲۰مارچ ۱۹۳۲ء کا مناظرہ نشت اول مبحث حیات ووفات مسیح
۲۰؍مارچ کو صبح ۸بجے سے ۱۱بجے تک حیات وممات مسیح پر مناظرہ تھا۔ اہل اسلام کی طرف سے مولانا حافظ وحاجی محمدابراہیم صاحب میرسیالکوٹی تھے اور مرزائیوں کی طرف سے جناب مولوی محمدسلیم صاحب۔
مولوی محمدسلیم صاحب نے وفات مسیح پر پہلی دلیل یہ پیش کی:
خدا تعالیٰ فرماتا ہے: ’’واذقال اﷲ یاعیسیٰ ابن مریم ء انت قلت للناس اتخذونی وامی الٰھین من دون اﷲ وانت علیٰ کل شئی شہید (المائدہ:)‘‘ اور جب قیامت کے دن خدا تعالیٰ کہے گا اے عیسیٰ بیٹے مریم کے کیا تونے لوگوں کو کہا تھا کہ مجھ کو اور میری والدہ کو خدا کے سوائے دومعبود بنالو حضرت عیسیٰ جواب دیں گے تو پاک ہے مجھے لائق نہیں کہ میں وہ بات کہوں جس کا مجھے کوئی حق نہیں۔ اگر میں نے یہ کہا ہے تو تجھے علم ہے تو دلوں کے بھیدوں سے ماہر ہے اور میں نہیں جانتا کہ تیرے دل میں کیا ہے۔ میں نے تو ان کو یہی کہا ہے جو تونے مجھے حکم کیا تھا یعنی پوجاکر خدا کی جو میرا بھی اور تمہارا بھی مربی ہے اور میں ان سے خبردار تھا