چاہئے اور کتاب وسنت کے کن کن مقامات سے استفادہ کرنا چاہئے؟ بلکہ اس کے برعکس یہ صرف اس پر اکتفا کریں گے کہ اپنے ڈھب کی کچھ آیتیں ڈھونڈلیں۔ سیاق وسباق سے انہیں علیحدہ کریں اور تاویل وترجمہ کی تحریفات سے ایسے ایسے معنی پہنائیں کہ ان کی مطلب برآری ہوسکے۔ سنت کے ان مقامات کو یہ چھوڑدیں گے۔ جہاں اس مسئلہ پر روشنی پڑتی ہے یا اصولاً پڑسکتی ہے اور نظر وہاں دوڑائیں گے جہاں سرے سے یہ مسئلہ بیان کرنا مقصود ہی نہیں۔
حیات مسیح کی متعلقہ تنقیحات
ان کے اس انداز استدلال کی مثالیں بہت ہیں اور ان کی تفصیل اتنی دلچسپ ہے کہ اگر نفس موضوع سے ہٹ جانے کا خطرہ لاحق نہ ہوتا تو میں قطعی بیان کرتا۔ وضاحت کے لئے صرف اس قدر لکھنا کافی ہے کہ لگے ہاتھوں آپ حیات مسیح سے متعلق یہ معلوم کرلیجئے کہ وہ کیا تنقیحات ہیں جن پر روشنی ڈالنی چاہئے اور وہ کیا انداز ہے سوچنے کا جو درست نتائج تک پہنچاسکتا ہے اور مرزائی کیونکر اس انداز سے پہلو تہی کرتے ہیں؟ سب سے پہلے اس کی تاریخی پچھواڑ پر غور فرمائیے کہ یہودی بھی ایک مسیح کے منتظر ہیں اور عیسائی بھی۔ اس کی آمد ثانی کے قائل اور اس کی زندگی کے معترف۔ اب قرآن کا منصب یہ ہونا چاہئے کہ وہ دونوں کے اس متفقہ عقیدے کے مقابلہ میں بتائے کہ اسکی کا روش ہے۔ آیا مسیح کا انتقال ہوچکا یا وہ ابھی زندہ ہے اور دوبارہ آئے گا۔
فرض کرلیجئے کہ قرآن کے نقطہ نظر سے اس کا انتقال ہوچکا۔ جیسا کہ مرزائی سمجھتے ہیں۔ اگر یہ پوزیشن صحیح ہے تو قرآن کو بڑے صاف لفظوں میں دوٹوک اس رائے کا اظہار کردینا چاہئے۔ اس سے ایک تاریخی نزاع کا ہمیشہ ہمیشہ کے لئے فیصلہ ہوجاتا ہے۔ لیکن صورت حال یہ ہے کہ یہ مسئلہ جس ڈھنگ سے قرآن میں مذکور ہوا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بہرآئینہ استدلال کا مسئلہ ہے۔ اب وہ صحیح ہو یا غلط اس سے بحث نہ کیجئے۔ اس پر غور فرمائیے گا۔ نص صریح کا کسی صورت میں بھی نہیں۔ یعنی ثبوت کا مزاج استدلالی ہے۔ جو بحث ونزاع کا ہدف ہوسکتا ہے۔ ایسا واضح نکھرا ہوا اور متعین نہیں کہ اس میں اختلاف کے لئے کوئی گنجائش نہ ہو۔ یہ برسبیل تنزل ہے۔ ورنہ ہماری رائے میں اس کی زندگی سے متعلق اشارات اس سے کہیں زیادہ واضح ہیں۔ اس نکتہ کے فہم پر اگر مناظرانہ تنگ نظری قادر نہ ہو تو اس تنقیح پر غور فرمالیا جائے کہ عیسائیوں کے نقطہ نظر سے حضرت مسیح خدا اور خدا کے بیٹے ہیں۔ اب اگر مسیح کا انتقال ہوچکا ہے تو یہ اس عقیدہ پر ایسی براہ راست چوٹ ہے جس کی سہار عیسائیت میں بالکل نہیں۔ لیکن کتنے تعجب کی بات ہے کہ سارے قرآن میں ایک جگہ بھی وفات مسیح کو بطور ابطال الوہیت مسیح کے پیش نہیں کیاگیا۔