نتائج بیان کئے۔ آہستہ آہستہ کچھ اور آدمی بھی حلقہ بگوش اسلام ہوگئے۔ لیکن ساتھ ساتھ مخالفت بھی پورے زور کے ہوئی تھی۔ رفتہ رفتہ اہل عرب کے مظالم اس قدر بڑھ گئے کہ ابتدائی مسلمانوں کو کسی محفوظ اور مضبوط پناہ کی تلاش میں ہجرت کرنا پڑی۔ لیکن جہاں کہیں بھی وہ گئے ان کے دلوں سے اپنے محبوب رسول اور ان کی تعلیم کی یاد فراموش نہیں ہوئی۔ لیکن اب پیغمبر صاحب پر بھی تاریک زمانہ شروع ہوا اور مخالفین کے مظالم اس ہولناک حد تک پہنچ گئے کہ سوائے ایک کے باقی تمام مسلمان ہجرت کر کے دوسرے ممالک میں چلے گئے۔ محمدؐ کے چچا ابوطالب نے اصرار کیا کہ آپ اپنا کام چھوڑ دیں۔ لیکن آپؐ نے اس قسم کی کوئی بات نہ سنی اور کہا۔ اگر وہ سورج کو میرے دائیں ہاتھ پر اور چاند کو بائیں ہاتھ پر رکھ دیں تو بھی میں اپنے کام سے باز نہیں رہوںگا۔ یقینا اس کام سے اس وقت تک دست بردار نہ ہوںگا جب تک اﷲتعالیٰ اس نورانی مذہب کو دنیا پر ظاہر نہ کردے یا میں خود اس کوشش میں جان نہ دے دوں۔
چچا کی گفتگو سے محمدؐ شکستہ ہوجاتے ہیں اور رنج وتاسف اور ملال کی حالت میں اپنا کمبل اوڑھ کر چلنے کے لئے تیار ہوتے ہیں کہ ان کے چچا کی آواز آتی ہے۔ ٹھہرو، ٹھہرو! محمدؐ! جو کچھ تم کہنا چاہتے ہو آزادی سے کہو۔ خدا کی قسم میں تمہارا ساتھ کبھی نہ چھوڑوںگا۔ یہ الفاظ محمدؐ کے اس چچا کے ہیں۔ جس نے اگرچہ آپؐ کے پیغام کو تسلیم نہ کیا تھا۔ لیکن باوجود اس کے آپؐ کے مشن اور آپؐ کی ذات سے اس قدر مانوس تھا۔
لیکن اب پہلے سے بھی زیادہ نازک وقت آیا ہے۔ آپؐ کے چچا اور آپؐ کی محبوب بیوی خدیجہؓ کا انتقال ہوجاتا ہے۔ جو ہر کام میں آپؐ کی عقلمند مشیر تھیں۔ ان دونوں کی موت سے محمدؐ تنہا رہ جاتے ہیں۔ اس سال کو مسلمان رونے کا سال کہتے ہیں۔
اب ان کے ساتھ مکہ میں صرف علیؓ اور جان نثار ابوبکرؓ رہ جاتے ہیں۔ ان کے دشمن ان