بننے کو تیار ہوگئے کہ عیسیٰ علیہ السلام بے باپ کے پیدا ہوئے۔ عزیز من! معجزہ کی تعریف تو یہ ہے کہ مخلوق میں سے کسی برگزیدہ نبی سے اس طرح کوئی فعل سرزد ہو کہ اس کے مقابلہ سے عوام عاجز آجائیں اور وہ قوت ان کی ذاتی نہ ہو۔ بلکہ بعطاء الٰہی ان میں نظر آئے۔ مگر اس معجزہ کا فاعل بظاہر وہی نبی ہو۔
امر ولادت ایک ایسی چیز ہے جس کا تعلق پیدا ہونے والے سے نہیں بلکہ پیدا کرنے والے سے ہے اور جس فعل کا ظہور خالق کی طرف سے ہو۔ اسے مخلوق کی طرف منسوب کر کے معجزانہ کا دعویٰ کرنا محض خوش فہمی کی دلیل ہے۔ بلکہ بموجب آیہ کریمہ ’’ان مثل عیسیٰ عند اﷲ کمثل اٰدم خلقہ من تراب ثم قال لہ کن فیکون‘‘ حضرت آدم علیہ السلام کی صورت ولادت بجائے حضرت عیسیٰ کے زیادہ معجزانہ ہے۔ لہٰذا عیسائی بننے کی تیاری نہ کیجئے۔ بلکہ آدمی بننے کی فکر فرمائیے۔ کیونکہ آیہ مذکور میں صاف ارشاد ہے کہ بے شک عیسیٰ علیہ السلام کی مثال مثل آدم کے ہے۔ (کہ وہ بے باپ پیدا کئے گئے) اور آدم کو محض مٹی سے بناکر حکم فرمایا تو وہ پیدا ہوگئے۔ یہاں ماں ہے نہ باپ۔
علاوہ ازیں شان تخلیق اب تک چار صورتوں میں نظر آئی ہے۔ اوّل درجہ یہ کہ بلاوساطت والدین جیسے آدم صفی علیہ السلام دوسرے بوساطت والدہ جیسے عیسیٰ علیہ السلام۔ تیسرے بوساطت مرد جیسے حضرت حوا علیہا السلام، چوتھے بوساطت والدین، جیسے تمام مخلوقات اور غالباً یہی شان تخلیق خالق زمین وزمان کو زیادہ مرغوب ہے کہ اس صورت میں اپنے محبوب خاص جناب محمد رسول اﷲﷺ کی ولادت فرمائی۔ پھر اگر معجزانہ تخلیق سبب شرافت وعظمت علی الخلائق ہے تو آدمی بننا پسند نہ ہو تو حوائی بنئے کہ اور بھی زیادہ معجزانہ ہے کہ عادت اﷲ کے خلاف ظہور ہوا ہے۔
اور پھر ناقۂ صالح علیہ السلام کو سب سے افضل ماننا پڑے گا کہ وہ پتھر کی چٹان سے نکلا اور باہر آتے ہی بچہ دیا۔ لہٰذا ناقیٔ بنئے اور اس کا تذکرہ قرآن کریم میں موجود ہے۔ ’’فقال لہم رسول اﷲ ناقۃ اﷲ وسقیاھا‘‘
میاں اکرام! اعتراص کرتے یا حقائق قرآن پڑھتے وقت کچھ سوچا بھی ہوتا۔ یوں ہی پکار بیٹھے کہ میں دلائل حقائق قرآن سے متاثر ہوچکا ہوں۔ ہمیشہ یاد رکھو کہ ہر فعل فاعل کی ذات کے ساتھ وابستہ ہوتا ہے اور مفعول پر اس کا ظہور ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس شان سے عیسیٰ علیہ السلام کو پیدا فرماکر بتایا کہ: ’’ولنجعلہ اٰیۃ للناس‘‘ ہم نے مسیح کو بے باپ پیدا کر کے اپنی قدرت کی