اس تمہید کے بعد اوّل ہمیں ایک بزرگوار کا تعارف کرادینا ضروری ہے۔ تاکہ ناظرین انہیں سمجھ سکیں کہ یہ کون ہیں اور کیا ہیں۔ پھر ان کی ان عنایات کا شکریہ جواب کی صورت میں پیش کردینا ہے جو انہوں نے اپنی عصبیت مذہبی کے اقتضاء سے اسلام اور بانی اسلام سید اکرم رحمت دو عالم حضرت محمد رسول اﷲﷺ پر کی ہیں۔ ’’واﷲ الموفق والمعین ونستعین‘‘
ایک مدت گزری کہ عیسائیوں کی طرف سے ایک ٹریکٹ نکلا تھا جس کا نام حقائق القرآن تھا۔ اس کا جواب غیر مقلدین کی طرف سے بھی شائع ہوا تھا اور اہل سنت نے بھی بہت سے اجوبہ دئیے تھے۔
پھر دوبارہ جب کہ نومبر۱۹۳۲ء میں مرکزی انجمن حزب الاحناف ہند لاہور کا سالانہ جلسہ ہونے والا تھا۔ اس وقت ایک اکرام الحق نامی عیسائی یا مرزائی یا ’’لا الیٰ ھؤلاء ولا الیٰ ھؤلای‘‘ نے کھلی چٹھی بنام علماء کرام شائع کی۔ جس میں ہوبہو وہی اعتراضات حقائق القرآن کے حوالہ سے لکھ کر احناف کو ڈرایا تھا کہ یاتو جواب شافی دو۔ ورنہ میں مرزائی یا عیسائی ہوجاؤںگا۔ چنانچہ اسی وقت بہت سے اجوبہ شائع ہوئے۔ جلسہ میں بھی علماء کرام نے مختصر جوابات دئیے۔ مگر احباب کا برابر اصرار رہا کہ جوابات مفصل براہین واضحہ کے ساتھ شائع کئے جائیں۔ مگر میں ٹالتا رہا۔ آخرش بزم تنظیم نے بزور درخواست کی کہ جوابات لکھے جائیں۔ ہم شائع کریںگے۔ لہٰذا اب مجھے ان اعتراضات کے جوابات کے لئے قلم اٹھانا پڑا۔ میں نے فیصلہ کیا ہے کہ معترض میرے اجوبہ تسلیم کرے یا نہ کرے۔ مگر میں انشاء اﷲ حتیٰ المقدور ہرآیت کا جواب آیت سے اور حدیث کا جواب حدیث سے دوںگا اور تہذیب کے دائرہ سے خارج کوئی لفظ اپنی قلم سے نہ نکالوںگا۔ آئندہ ہدایت یہ قدرت الٰہی میں ہے۔ ’’وما علینا الا البلاغ‘‘
ملحض تمام اعتراضات کا یہ ہے کہ
ازروئے قرآن حضرت عیسیٰ علیہ السلام سید اکرمﷺ سے افضل ہیں۔ اس دعویٰ کے ثبوت میں حوالہ جات قرآنی دئیے ہیں اور ان ادلہ کی تعداد چودہ تک پہنچائی ہے۔ ہم معترض صاحب کے اعتراض کو عنایت کے لفظ کے ساتھ تعبیر کریںگے اور جواب کے موقعہ پر شکریہ لکھیںگے اور جملہ اعتراضات کا ملحض نقل کریںگے۔
عنایت اوّل: حضرت مسیح کی پیدائش بے باپ کے معجزانہ تھی۔ اس لئے وہ حضورﷺ سے افضل تھے۔
شکریہ: میاں اکرام! آپ نے سخت غلطی کی ہے جو محض اس کی وجہ سے آپ عیسائی