بسم اﷲ الرحمن الرحیم!
’’الحمد لولیہ والصلوٰۃ والسلام علیٰ نبیہ وحبیبہ‘‘
دور حاضرہ میں چونکہ آزادی کا زور ہے۔ اسی وجہ سے ہرسمت بے دینی کا شور ہے۔ آج وہ وقت ہے کہ انسان اگرچاہے کہ یکسو ہو کر ایک مذہب کا متبع بنا رہے تو مشکل ہے۔ اس لئے کہ علم دنیاسے اٹھ رہا ہے۔ جہالت عام ہورہی ہے۔ پھر ایک جاہل جو اپنے پرانے طریقہ پرجارہا ہے۔ اس کو جب کوئی نئی آواز آتی ہے تو وہ مجبور ہے کہ اسے سنے اور سننے کے بعد معذور ہے کہ مذبذب ہو۔ پھر مذبذب ہونے پر اس کے لئے ناگزیر ہے کہ وہ جس پر اپنا یقین جمائے ہوئے ہے۔ جسے اپنا راہنما جان رہا ہے۔ جس کو عالم باعمل سمجھ رہا ہے۔ اس سے ان شبہات کا ازالہ کرے اور عالم جب اس کے وہ اعتراضات سنتا ہے تو دو باتوں میں سے ایک بات کرنے پر مجبور ہوتا ہے یا کہہ دیتا ہے کہ تم نے ایسے بیدین کی بات ہی کیوں سنی۔ اپنی پرانی روش پر چلا جانا تمہارا فرض تھا یا جواب دیتا ہے اب جواب کی صورت بھی دو حال سے خالی نہ ہوگی یا وہ جواب ایسے علمی جواہرریزوں سے مزین ہوگا کہ وہ سن کر کچھ نہ سمجھ سکا ہو۔ یا ایسے سادہ الفاظ میں ہوگا کہ اس کی اس جواب سے بری نہ ہو اور تیسرا درجہ جواب کا یہ ہوسکتا ہے کہ وہ اپنی تشفی اس جواب سے کرسکا ہو۔ مگر پھر جدید شبہات سے وہ اگر مذبذب ہو جائے تو اس میں اس کی جہل کی وجہ ہی ہو سکے گی۔ بہرکیف آج جہاں عالم عالم میںبیدینوں کے حملوں سے محفوظ نہیں ہیں۔ وہاں عوام جاہل بھی ان کے نخچیرہیں۔ سخت مشکل ہے آج حیرت ہی حیرت ہے۔ انسان کرے تو کیا کرے۔ اگر سب سے صلح رکھتا ہے تو حکم قرآنی ’’لا تجدو قوماً یومنون باﷲ والیوم الآخرۃ یوادون من حاد اﷲ ورسولہ ولو کانوا ایائہم وابنائہم واخوانہم اوعشیرتہم‘‘ کے خلاف ورزی کرنے والا بن کرملزم شرعی قرار پاتا ہے اور اگر سب کو دندان شکن جواب دیتا ہے تو ہمارے اپٹوڈیٹ انگریزی خوان ناراض ہوتے ہیں۔ اگر خاموش رہتا ہے تو شیطان اخرس مداہن فی الدین قرار پاتا ہے۔ بنابریں چوتھا طریقہ ہمارے ذہن میں آیا ہے۔ وہ اگر ہمارا خیال غلطی نہیں کرتا تو شاید عام طور پر بھی پسندیدہ ہوگا۔ ’’ولیس وراء ذالک حبۃ خردل من الایمان‘‘
وہ یہ کہ سخت کلامی درشت زبانی، سب وشتم، طعن وتشنیع، میں میں، توتو، واہی تواہے اوندھے سیدھے سے مجتنب رہ کر بخندان پیشانی سادہ بیانی اختیار کر کے مہذب پیرایہ میں معترض کے اعتراض کو لے کر اس کا شانی وافی کافی واضح لائح روشن طریق سے جواب دے۔ پھرمنصف کے لئے وہ یقینا مشعل ہدایت ہوگا اور غیر منصف کے لئے نہ وہ کفایت کرسکتا ہے نہ یہ۔ لہٰذا اس