گمان یہ ہے کہ شائع ہی نہیں ہوا۔ جو کتاب میسر آئی ہے۔ یہ فوٹو سٹیٹ ہے۔ فہرست میں نقد وتبصرہ کی سرخی ہے۔ جو ص۷ سے ص۳۳ تک صفحات کو حاوی ہے۔ وہ فوٹو سٹیٹ جس کتاب سے ہوئی۔ اس میں بھی ص۷ سے ص۳۳ تک صفحات موجود نہ تھے۔ نامعلوم اس میں کیا کچھ تھا کیا تبصرہ تھا۔ آگے ص۳۷ سے ص۴۷ تک تمہید ہے۔ فوٹو میں موجود ہے۔ لیکن میں نے حذف کردیا۔ اس دور میں سیاست، زمیندار دو اخبارات کی توتکار کو آج کی نئی نسل کو یہ بحث پڑھانا، ذہن پرآگندہ کرنے والی بات ہے۔ ان مباحث کا آج کی نسل سے کوئی تعلق نہیں۔ اس لئے اسے بھی حذف کردیا۔ الحمدﷲ! ردقادیانیت کی بحث جہاں سے شروع ہوئی وہ اوّل سے آخر تک موجود تھی اور یہ ہمارا مقصود ہے۔ تو گویا گوہر مقصود مل گیا۔
سید حبیب صاحب اپنے دور کے اچھے لکھاری، ادیب اور رہنما تھے۔ کشمیر کمیٹی میں مرزا محمود ملعون کے ساتھ کام کرتے۔ لاہوری مرزائی ڈاکٹر یعقوب بیگ سے مفت علاج کراتے رہے۔ ان دونوں کے بارہ میں نرم گوشہ رکھتے تھے۔ لیکن جب قلم پکڑا تو مرزاقادیانی ملعون کے بخئے ادھیڑنے کا خوب حق ادا کیا۔ مولانا ظفر علی خان کے معاصر تھے۔ ان سے دوستی، دشمنی رہی۔ اخبار والوں کا یہی حال ہوتا ہے۔ روزنامہ سیاست لاہور کے مدیر تھے۔ ان کا یہ مضمون سیاست میں قسط وار چھپتا رہا۔ پھر کتابی شکل میں شائع کیا۔ اس نایاب کتاب کو زندہ کرنے کی سعادت پر شکر الٰہی بجا لاتے ہیں۔ الحمد لللّٰہ اولاً وآخراً!
۱/۸… ’’مرزائیت نئے زاویوں سے‘‘
4… مولانا محمد حنیف ندویؒ اہل حدیث مکتب فکر کے جید عالم دین اور صاحب قلم رہنما تھے۔ الاعتصام لاہور میں فتنۂ قادیانیت کے خلاف آپ کے مضامین شائع ہوتے رہے۔ عرصہ ہوا، مکتبہ ادب ودین، گوجرانوالہ، لاہور نے اسے کتابی شکل میں’’مرزائیت نئے زاویوں‘‘ کے نام سے شائع کیا۔ اس جلد میں اسے بھی شائع کرنے کی سعادت حاصل ہورہی ہے۔