کی بناء پر پیش گوئی نہیں بلکہ محض دعاء کے طور پر میں نے خدا سے فیصلہ چاہا ہے اور میں خدا سے دعاء کرتا ہوں کہ اے میرے مالک اگر یہ دعویٰ مسیح موعود ہونے کا محض میرے نفس کا افتراء ہے اور میں تیری نظر میں مفسد وکذاب ہوں اور دن رات افتراء کرنا میرا کام ہے تو اے میرے پیارے مالک، میں عاجزی سے تیری جناب میں دعاء کرتا ہوں کہ مولوی ثناء اﷲ صاحب کی زندگی میں مجھے ہلاک کر اور میری موت سے ان کی جماعت کو خوش کر دے۔ مگر اے میرے کامل اور صادق خدا اگر مولوی ثناء اﷲ ان تہمتوں میں جو مجھ پر لگاتا ہے۔ حق پر نہیں تو میری زندگی میں ان کو نابود کر دے۔ مگر نہ انسانی ہاتھوں سے بلکہ طاعون وہیضہ وغیرہ امراض مہلکہ سے۔ (اخیر میںاس خط کے لکھتے ہیں) اب میں تیرے ہی تقدس ورحمت کا دامن پکڑ کر تیری جناب میں ملتجی ہوں کہ مجھ میں اور ثناء اﷲ میں سچا فیصلہ فرما اور جو تیری نگاہ میں حقیقت میں مفسد اور کذاب ہے اس کو صادق کی زندگی میں ہی دنیا سے اٹھالے۔ آمین ثم آمین!‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۲۷۶)
پھر اس خط کو اشتہار کی صورت میں شائع کر کے اس کے ہفتہ عشرہ بعد ۲۵؍اپریل ۱۹۰۷ء کو اخبار بدر قادیان میں مرزاقادیانی کی ڈائری روزانہ کی جو اس میں شائع ہوتی تھی اس میں لکھا۔ ’’ثناء اﷲ کے متعلق جو کچھ لکھا گیا یہ دراصل ہماری (مرزاقادیانی) کی طرف سے نہیں بلکہ خدا ہی کی طرف سے اس کی بنیاد رکھی گئی ہے۔‘‘ سائل: یہ خط گویا اپریل۱۹۰۷ء کو شائع ہوا۔ پھر اس سے بعد مرزاقادیانی مرے یا مولوی ثناء اﷲ امرتسری۔
مجیب: خدا کی شان مرزاقادیانی اس خط کے شائع کرنے کے ایک ہی سال بعد ۲۶؍مئی۱۹۰۸ء کو دستوں کی مرض میں مبتلا ہو کر مرگئے۔ اس زمانہ میں حضرت والا قبلہ مدظلہ العالی انجمن نعمانیہ میں مدرس اوّل تھے اور میں طالب علمی میں تھا کہ مرزاقادیانی لاہور آئے۔ کیلے والی سڑک پر کسی مکان میں تھے۔ حضرت قبلہ عالم پیر سید جماعت علی شاہ صاحب قبلہ اس کے مقابلہ کو تشریف لائے تھے۔ مرزاقادیانی سامنے آنے سے پہلو بچارہے تھے۔ اسی حالت میں حضرت ممدوح نے نہایت زور سے دعاء فرمائی کہ الٰہی اگر مرزا سچا ہے تو مجھے منگل تک ہلاک کر ورنہ وہ منگل نہ پکڑے۔ تو ہر شے پر قادر ہے۔ چنانچہ منگل کی رات میں ہی مرزاقادیانی ۲۶؍مئی کو مرگئے اور دستوں میں ہی مرے اور یہی بددعاء مرزاقادیانی نے مولوی ثناء اﷲ کے لئے کی تھی کہ طاعون یا ہیضہ میں مرے۔ وہ تو اب تک نہ مرے۔ مگر مرزاقادیانی مرگئے۔
سائل: دستوں میں مرنے کی کیا سند ہے؟