مجیب: سند ملاحظہ کر کے تو آپ شاید صاف کہہ دیں کہ مرزاقادیانی ہیضہ میں ہی مرے۔ ملاحظہ ہو۔ (ضمیمہ اخبار الحکم قادیان غیر معمولی مورخہ ۲۸؍مئی ۱۹۰۸ئ) میں مرزاقادیانی کی وفات اس طرح درج ہے۔ ’’برادران اسلام جیسا کہ آپ سب صاحبان کو معلوم ہے حضرت امامنا مولانا مسیح موعود، مہدی مہود مرزاقادیانی کو اسہال کی بیماری بہت دیر سے تھی اور جب آپ کوئی دماغی کام زور سے کرتے تھے تو بڑھ جاتی تھی۔ حضور کو یہ بیماری بسبب کھانا نہ ہضم ہونے کے تھی۔ (مگر حضور کھائے بغیر رہتے نہ تھے۔ مؤلف) اور چونکہ دل سخت کمزور تھا اور نبض ساقط ہو جایا کرتی تھی اور عموماً مشک وغیرہ کے استعمال سے واپس آجایا کرتی تھی۔ اس دفعہ لاہور کے قیام میں بھی حضور کو (یعنی مرزاقادیانی کو) دو تین دفعہ پہلے یہ حالت ہوئی۔ لیکن ۲۵؍مئی کی شام کو جب کہ آپ سارا دن پیغام صلح کا مضمون لکھنے کے بعد سیر کو تشریف لے گئے تو واپسی پر حضور کو پھر اس بیماری کا دورہ شروع ہوگیا اور وہی دوائی جو کہ پہلے مقوی معدہ استعمال فرماتے تھے۔ مجھے حکم بھیجا تو بنوا کر بھیج دی گئی۔ مگر اس سے کوئی فائدہ نہ ہوا اور قریباً گیارہ بجے اور ایک دست آنے پر طبیعت ازحد کمزور ہوگئی اور مجھے اور حضرت خلیفہ نورالدین صاحب کو طلب فرمایا۔ مقوی ادویہ دی گئیں اور اس خیال سے کہ دماغی کام کی وجہ سے یہ مرض شروع ہوئی۔ نیند آنے سے آرام آجائے گا۔ ہم واپس اپنی جگہ پر چلے گئے۔ مگر تقریباً دواور تین بجے کے درمیان ایک اور بڑا دست آگیا۔ جس سے نبض بالکل بند ہوگئی۔ مجھے اور خلیفہ المسیح مولوی نورالدین صاحب اور خواجہ کمال الدین صاحب کو بلوایا اور برادرم ڈاکٹر یعقوب بیگ صاحب کو بھی گھر سے طلب کیا اور جب وہ تشریف لائے تو مرزایعقوب بیگ صاحب کو اپنے پاس بلا کر کہا کہ مجھے سخت اسہال کا دورہ ہوگیا ہے۔ آپ کوئی دوا تجویز کریں۔ علاج شروع کیاگیا۔ چونکہ حالت نازک ہوگئی تھی۔ اس لئے ہم پاس ہی ٹھہرے رہے اور علاج باقاعدہ ہوتارہا۔ مگر پھر نبض واپس نہ آئی۔ یہاں تک کہ ساڑھے دس بجے صبح ۲۶؍مئی ۱۹۰۸ء کو حضرت اقدس کی روح اپنے محبوب حقیقی سے جاملی۔ ’’انا ﷲ وانا الیہ راجعون‘‘ دیکھی آپ نے دستوں کی سند۔
سائل: جی ہاں! اس سے تو ثابت ہوتا ہے کہ مرزاقادیانی کی دعاء بہت ہی جلدی مستجاب ہوئی اور سچے کے سامنے جھوٹے کو اﷲ نے ہلاک فرمایا۔ ہاں قبلہ باقی چار جماعتوں کی تصریح اور سنادیں۔
مجیب: بقیہ جماعتوں کی تصریح انشاء اﷲ پھر، یار زندہ صحبت باقی۔
(فقیر: قادری ابوالحسنات خطیب مسجد وزیرخان، لاہور)