تھی جو اوّل ہی تاڑ گئی اور مخالف رہی اور تردید میں سرگرم ہوگئی۔ دوسری! جماعت وہ جو اوّل اوّل مرزاقادیانی کی سخت معتقد رہی۔ پھر دعویٰ مسیحیت کے وقت منحرف ہوئی۔ تیسری! جماعت جس نے دعویٰ مسیح موعود قبول کر کے نبوت کے دعویٰ کو ٹالا اور ٹال رہی ہے۔ چوتھی! جماعت وہ جو مرزاقادیانی کے دعویٰ نبوت کو تسلیم کرکے اسی پر اب تک اڑی ہوئی ہے۔ پانچویں! جماعت وہ ہے جو نبوت مرزا صاحب کو مان کر خود بھی نبی ہونے کی مدعی ہے۔ سائل: یہ تیسری جماعت جو نبوت کے دعاوی ٹال رہی ہے۔ یہ تو شاید لاہوری جماعت ہوگی اور چوتھی مرزامحمود کی جماعت ہوگی۔
مجیب: ہاں آپ کا خیال صحیح ہے۔
سائل: اور پہلی جماعت میں کون لوگ ہیں؟
مجیب: اس میں علماء حقہ اہل سنت وجماعت اور غیر مقلدین کی جماعت کے پیشوا اور مولوی ثناء اﷲ وغیرہ ہیں۔ چنانچہ مولوی ثناء اﷲ امرتسری سے تو مرزاقادیانی کی خوب ہی چھنتی رہی۔ حتیٰ کہ مرزاقادیانی نے ایک خط مولوی ثناء اﷲ کو لکھا اور وہ تمام کا تمام ہی پڑھ لیں۔ بڑے مزے کا خط ہے۔ ’’بخدمت مولوی ثناء اﷲ صاحب۔ السلام علیٰ من التبع الہدیٰ! مدت سے آپ کے پرچہ اہل حدیث میں میری تکذیب اور تفسیق کا سلسلہ جاری ہے۔ ہمیشہ مجھے آپ اپنے اس پرچہ میں مردود، کذاب، دجال، مفسد کے نام سے منسوب کرتے ہیں اور دنیا میں میری نسبت شہرت دیتے ہیں کہ اس شخص کا دعویٰ مسیح موعود ہونے کا سراسر افتراء ہے۔ میں نے آپ سے بہت دکھ اٹھایا اور صبر کرتا رہا۔ مگر چونکہ میں دیکھتا ہوں کہ میں حق کے پھیلانے کے لئے مامور ہوں اور آپ بہت سے افتراء میرے پر کر کے دنیا کو میری طرف آنے سے روکتے ہیں۔ اگر میں ایسا ہی کذاب ومفتری ہوں جیسا کہ اکثر اوقات آپ اپنے پرچہ میں مجھے یاد کرتے ہیں تو میں آپ کی زندگی میں ہی ہلاک ہو جاؤںگا۔ کیونکہ میں جانتا ہوں کہ مفسد اور کذاب کی عمر دراز نہیں ہوتی اور آخر وہ ذلت اور حسرت کے ساتھ اپنے اشد دشمنوں کی زندگی میں ہی ناکام ہلاک ہوجاتا ہے اور اس کا ہلاک ہونا ہی بہتر ہے۔ تاکہ وہ خدا کے بندوں کو تباہ نہ کرے اور اگر میں کذاب ومفتری نہیں ہوں اور خدا کے مکالمہ مخاطبہ سے مشرف ہوں اور مسیح موعود ہوں تو میں خدا کے فضل سے امید رکھتا ہوں کہ آپ سنت اﷲ کے موافق مکذبین کی سزا سے نہیں بچیںگے۔ پس اگر وہ سزا جو انسان کے ہاتھوں سے نہیں بلکہ محض خدا کے ہاتھوں سے ہے۔ جیسے طاعون، ہیضہ وغیرہ مہلک بیماریاں آپ پر میری زندگی میں ہی وارد نہ ہوئیں تو میں خدا کی طرف سے نہیں۔ یہ کسی الہام یا وحی