بنائے فاسد علی الفاسد ہے۔ باقی رہا آپ کا یہ کہنا کہ: ’’کسی شخص کا آسمان پر رہنا خلاف آیت ہے۔‘‘ قطع نظربے ثبوت ہونے کے تحریرات مرزا قادیانی کے بھی مخالف ہے۔ سنئے! مرزا قادیانی اقراری ہیں کہ حضرت موسیٰ آسمان میں زندہ موجود ہیں۔
جیسا کہ لکھا ہے: ’’عیسیٰ صرف اور نبیوں کی طرح ایک نبی خدا کا ہے اور وہ اس نبی معصوم کی شریعت کا ایک خادم ہے…… یہ موسیٰ مرد خدا ہے جس کی نسبت قرآن میں اشارہ ہے کہ وہ زندہ ہے اور ہم پر فرض ہوگیا کہ ہم اسبات پر ایمان لائیں کہ وہ زندہ آسمان میں موجود ہے اور مردوں میں سے نہیں…… مگر … ہم قرآن میں بغیر وفات عیسیٰ کے اور کچھ ذکر نہیں پاتے۔‘‘ (نورالحق ص۵۰، خزائن ج۸ص۶۸،۶۹)
حضرت مولانا سیالکوٹی کی اس تقریر کے جواب میں احمدی مناظر نے کہا کہ: ’’حضرت موسیٰ کی روحانی زندگی مراد ہے اور آیت ’’الم نجعل الارض کفاتاً‘‘ کے معنے میں نے کافی نہیں کئے۔‘‘
اس کے جواب میں مولانا محمدابراہیم صاحب نے فرمایا کہ اگر کفاتاً کے معنی آپ نے کافی نہیں کہ تو پھر بتلائیے آپ کا اس آیت سے استدلال کیا ہے۔ (اس کا کوئی جواب احمدی مولوی صاحب نے نہیں دیا) باقی رہا حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زندگی کو روحانی کہنا سو یہ مرزاقادیانی کی تصریح کے سراسر خلاف ہے۔ روحانی زندگی تو بعد وفات سب انبیاء کرام بلکہ عوام کو بھی حاصل ہے۔ اس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی کون سی خصوصیت ہے۔ مرزاقادیانی نے جیسا کہ ہم ان کی عبارت پیش کرچکے ہیں۔ حضرت موسیٰ کو تو زندہ مانا بخلاف اس کے حضرت عیسیٰ کو وفات شدہ لکھا ہے۔ پس یہ تفریق ہی بتارہی ہے کہ مرزاقادیانی حضرت موسیٰ علیہ السلام کو تو سچ مچ زندہ مانتے تھے۔ اس کے بعد مرزائی مولوی صاحب نے اس پر کچھ نہ فرمایا۔
آٹھویں دلیل احمدی صاحبان کی طرف سے وفات مسیح کے ثبوت میں پیش کی گئی۔ ’’قرآن مجید میں ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بطور بشارت کہا۔ ’’مبشراً برسول یاتی من بعدہ اسمہ احمد‘‘ یعنی میری وفات کے بعد احمدﷺ آئیںگے۔ سو آنحضرتﷺ آچکے پس ثابت ہوا کہ مسیح فوت ہوگئے۔‘‘
جواب ابراہیمی
بعدی کے لفظ سے موت مراد لینا غلط ہے۔ سنئے قرآن میں ہے۔ ’’واذ وعدنا