: ’’وما جعلناہم جسداً لا یاکلون الطعام‘‘ نہیں بنایا ہم نے کوئی جسم جو طعام نہ کھاتا ہو۔ ان آیات نے فیصلہ کردیا کہ حضرت مسیح فوت ہوچکے ہیں جس طرح مریم فوت ہوچکی ہے۔
جواب ابراہیمی
پہلی آیت جو آپ نے پیش کی ہے۔ حق تعالیٰ نے عیسائیوں پر جو مسیح کو اور اس کی والدہ کو خدا مانتے تھے۔ حجت قائم کی ہے کہ وہ دونوں تو لوازم بشریٰ مثل طعام وغیرہ کے محتاج تھے۔ جو تم کو علم ہے۔ پھر وہ خدا کیسے ہوئے۔ اس آیت میں حضرت مسیح کی حیات وممات کا کوئی ذکر نہیں۔ باقی رہا آپ کا یہ کہنا جس طرح مریم طعام سے بوجہ موت رد کی گئی۔ اسی طرح مسیح بھی، سو اس کا جواب یہ ہے کہ اوّل تو آیت میں کوئی ایسا لفظ نہیں جس سے ظاہر ہو کہ وہ اب طعام نہیں کھاتے۔ اگر بفرض محال ہو بھی تو یہ ضروری نہیں کہ دو اشخاص کا ایک مشترکہ فعل سے روکا جانا ایک ہی وجہ سے ہو۔ حضرت مسیح کا طعام دنیوی سے روکا جانا بوجہ رفع الیٰ السماء ہے اور حضرت مریم کا بوجہ موت ہے۔ دوسری آیت سے جو آپ نے استدلال کیا ہے کہ کوئی جسم بغیر طعام کے زندہ نہیں رہ سکتا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اصطلاع شرع میں طعام کا لفظ روحانی انواروبرکات کے لئے بھی مستعمل ہے۔ جو انسان کے لئے اسی طرح مربی جسم ہیں۔ جس طرح طعام دنیاوی اس کی مثال حدیث نبویﷺ سے ملتی ہے کہ حضور علیہ السلام نے رروزہ وصال کے متعلق فرمایا کہ: ’’ایکم مثلی انی ابیت یطعمنی ربی ویقینی (بخاری ومسلم)‘‘ … میں روزہ طبی میں تمہاری مثل نہیں ہوں کہ بغیر ماکو لات ومشروبات دنیا کے زندہ نہ رہ سکوں۔ میں رات گذارتا ہوں اور میرا خدا مجھ کو طعام کھلاتا ہے اور پانی پلاتا ہے۔ دیکھئے الحدیث میں طعام سے مراد دنیاوی طعام تو ہو نہیں سکتا۔ کیونکہ اس کے کھانے سے تو روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ پس جو طعام اس جگہ مراد ہے وہی حضرت مسیح کھاتے ہیں۔
نوٹ از جانب مرتب
حضرت مولانا سیالکوٹیؒ نے جو یہ فرمایا ہے کہ تسبیح وتقدس رحمانی پر بھی اصطلاح شرع میں طعام کا لفظ استعمال ہوا ہے اور وہ انسان کے لئے اسی طرح مربی جسم ہیں جس طرح طعام دنیاوی۔ یہ جواب بالکل حدیث رسول اﷲﷺ کے مطابق ہے۔ جو ذکر دجال میں فرمائی گئی۔ ایک صحابی نے عرض کی کہ یا رسول اﷲﷺ جب دجال کے ہاتھ میں طعام ہوگا۔ تو ہم اہل اسلام کا اس وقت کیا حال ہوگا۔ حضورﷺ نے فرمایا: ’’یجزیہم ما یجزی اہل السماء من التسبیح والتقدیس‘‘ (روایت کیا الحدیث کو احمد، ابوداؤد، طیالسی نے) ترجمہ: جس طرح