کرنے والوں کے ساتھ۔ اس جگہ اگر ہم آپ کی مرقومہ ترتیب لازمی قرار دیں تو ترجمہ یہ ہوگا کہ پہلے نماز پڑھ بغیر رکوع کے اس کے بعد زکوٰۃ ادا کرو۔ پھر رکوع کرو۔ کیا فضول ترجمہ ہوگا۔ اے جناب! مطلب آیت کا صرف یہ ہے۔ یہ ہرسہ کام اپنے اپنے وقت پر کرو۔ ترتیب کا کوئی لحاظ نہیں۔ اسی طرح ایک جگہ بنی اسرائیل کے متعلق فرمایا کہ ہم نے ان کو حکم دیا۔ ’’واذ خلوا الباب سجداً وقولوا حطۃ (البقرہ:)‘‘ دوسری جگہ اس کو یوں ادا کیا کہ: ’’وقولوا حطۃ وادخلوا الباب سجداً (الاعراف:)‘‘ احمدی مولوی صاحب فرمائیے۔ اس جگہ آپ کی ترتیب کہاں گئی۔ ہاں آپ نے یہ جو پوچھا ہے کہ آیت کی ترتیب آخر کیا ہوگی اور ترتیب بدلنے کے لئے کون سا قرینہ ہے۔ سو اس کا اصل جواب تو وہی ہے جو ہم دے چکے ہیں۔ یعنی توفی کے معنی موت نہیں ہیں۔ لہٰذا ترتیب وہی ہے جو مندرج فی القرآن ہے۔ ہاں دوسرا جواب بطور فرض محال برتسلیم توفی بمعنی موت یہ ہے کہ جس طرح آیت ’’اقیموالصلوٰۃ واتوالزکوٰۃ وارکعوا مع الرکین‘‘ میں کام اپنے اپنے وقت پر کرنے کا حکم ہے۔ اسی طرح یہ چار وعدے جو حضرت مسیح سے ہوئے ہیں اپنے اپنے وقت پر کچھ پورے ہوچکے کچھ ہوںگے اور اس کے لئے قرینہ رسول اﷲﷺ کی حدیث ہے۔ جس میں حضرت مسیح علیہ السلام کا زمین پر اترنا اور بعد نزول پینتالیس سال گذار کر حجرہ نبویہﷺ میں دفن ہونا مرقوم ہے۔ جو یہ ہے۔ ’’قال رسول اﷲﷺ ینزل عیسیٰ ابن مریم فی الارض فتزوج ویولدلہ ویمکث خمس واربعین سنۃ ثم یموت فیدفن معی فی قبری‘‘
حضرت مولانا صاحب کی اس تقریر کا کوئی صحیح جواب مرزائی مولوی سے آخر تک نہ بن پڑا۔ ہاں اپنے نبی کی سنت پر عمل پیرا ہوکر یہ افتراء باندھا کہ: ’’مولوی محمد ابراہیم قرآن کی ترتیب کو غلط کہتے ہیں۔‘‘ اس کے جواب میں حضرت مولانا صاحب نے فرمایا: ’’یہ مجھ پر افتراء ہے۔ میں نے تو یہ کہا ہے کہ اس آیت کی ترتیب اسی طرح ہے جس طرح مندرج قرآن ہے۔ ہاں معنی وہ نہیں جو آپ کرتے ہیں اور اگر بفرض محال وہی معنی ہوں تو چونکہ قرآن مجید واحادیث صحیحہ سے حیات حضرت مسیح علیہ السلام کی ثابت ہے۔ اس لئے بقرینہ نصوص نبویہ ترتیب یہ ہوگی کہ بعد نزول حضرت مسیح وفات پائیںگے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے۔ ’’ثم یموت‘‘ فافہم!
حدیث پر احمدی مناظر نے یہ اعتراض کیا کہ فقرہ ’’یدفن معی فی قبری‘‘ کے معنی ہیں میری قبر میں دفن ہوگا۔ حالانکہ قبر نبوی کو پھاڑ کر مسیح کو دفن کرنا نبیﷺ کی ہتک ہے۔ اس لئے اس سے مراد روحانی قبر ہے۔ اگر قبر بمعنی مقبرہ مولوی صاحب ثابت کردیں تو مبلغ پانچ سوروپیہ