اس آیت میں جیسا کہ اس کے ترجمہ سے ظاہر ہے خدا نے چار وعدے مسیح سے کئے ہیں۔ سب سے پہلے موت کا ذکر فرمایا ہے اس کے بعد رفع پھر تطہیر کا پھر غلبہ متبعین کا۔ یہ آپ کو بھی علم ہے کہ امور مؤخر الذکر یعنی رفع، تطہیر وغلبہ ہوچکے ہیں۔ اس سے لازم آیا کہ وفات بھی ہوچکی ہے۔ کیونکہ وفات پہلے مذکور ہے اور قرآن مجید میں جو ترتیب مندرج ہے اس میں تقدیر وتاخیر قطعاً جائز نہیں۔ ہاں اگر آپ میں ہمت ہو تو قرآن شریف بدل دیجئے۔ پھر اگر آپ اسی پر اصرار کریں کہ اس آیت میں تقدیم وتاخیر ہے تو مہربانی سے آیت کی ترتیب بیان کیجئے کہ کس طرح ہوگی اور حضرت مسیح کب فوت ہوں گے۔ ساتھ ہی اس کے میں کہتا ہوں کہ اگر آپ توفی کے معنی پورا پورا لینے کے ثابت کردیں تو مبلغ پانچ روپیہ انعام دوں گا۔
جواب ابراہیمی
عزیز من! آپ کا سارا سوال ہی بنا فاسد علی الفاسد ہے۔ فقرہ یا عیسیٰ انی متوفیک کے معنے موت ہی نہیں ہیں۔ اس کے صحیح معنے یہ ہیں کہ اے عیسیٰ میں تجھے پورا پورا لینے والا ہوں۔ باقی رہا تمہارا انعام مقرر کرنا سو جو کچھ اﷲ تعالیٰ نے مجھے دیا ہوا ہے وہ اس سے بہتر ہے جو تمہیں دیا گیا ہے۔ ہاں آپ کے مطالبہ کا پورا کرنا میرا فرض ہے۔ جو بغیر انعام لئے کئے دیتا ہوں۔
سنئے! خود تمہارے امام ومطاع مرزا قادیانی جن کا دعوے تھا کہ میں براہین احمدیہ کے وقت ہی عنداﷲ رسول تھا۔ (ملاحظہ ہو ایام صلح ص۷۵، خزائن ج۱۴ص۳۰۹)
اسی کتاب براہین احمدیہ میں اس آیت کا ترجمہ یوں کرتے ہیں: ’’انی متوفیک ورافعک الیّ… میں تجھ کو پوری نعمت دوں گا اور اپنی طرف اٹھائوں گا۔‘‘
دیکھئے خود مرزا قادیانی نے فقرہ متوفیک کے معنے ’’پوری نعمت دوںگا‘‘ کئے ہیں اور ترتیب کے متعلق جو سوال تم نے کیا ہے سو جبکہ میں نے ثابت کردیا ہے کہ متوفیک کے معنی موت نہیں ہیں تو یہ سوال ہی اڑگیا۔ لیکن اگر ہم بفرض محال متوفیک کے معنی موت دوںگا ہی تسلیم کرلیں تو ترتیب کے متعلق جواب یہ ہے کہ خود مرزا قادیانی اقراری ہیں کہ: ’’یہ تو سچ ہے کہ یہ ضروری نہیں کہ حرف وائو کے ساتھ ہمیشہ ترتیب کا لحاظ واجب ہو۔‘‘
(تریاق القلوب ص۳۵۶ ، خزائن ج۱۵ص۴۵۴)
علاوہ قول مرزا قادیانی کے قرآن مجید میں اس کی متعدد مثالیں موجود ہیں کہ حرف وائو میں ترتیب لازمی نہیں۔ چنانچہ اس آیت میں ’’واقیمو الصلوٰۃ واتوالزکوٰۃ وارکعوا مع الراکعین (بقرہ:)‘‘ اہل کتاب کو خطاب ہے کہ قائم کرو نماز اور دیا کرو زکوٰۃ اور رکوع کرو رکوع