جب تک زندہ رہا۔ پھر جب تو نے مجھے مارلیا تو توہی خبر رکھتا ہے ان کی اور توہر چیز سے خبردار ہے۔
حضرات اس آیت سے ظاہر ہے کہ حضرت مسیح اپنے لئے صرف دو زمانوں کا ذکر کرتے ہیں۔ ایک وہ زمانہ جب وہ لوگوں میں موجود تھے۔ ایک وہ زمانہ جب انہیں وفات دی گئی۔ سو خدا کے روبرو انکا دوہی زمانوں کا ذکر کرنا اور اپنے نزول فرمانے کا ذکر نہ کرنا ثابت کررہا ہے کہ وہ نازل نہیں ہوں گے۔ (واضح رہے کہ یہ مناظرین کے اصل الفاظ نہیں ہیں۔ بلکہ ان کی تقاریر کا صحیح مفہوم ہے۔مرتب)
جواب از جانب اہل اسلام
اس کے جواب میں حضرت مولانا سیالکوٹی نے فرمایا:
آپ نے جو فقرہ مادمت فیہم کا ترجمہ ’’میں جب تک زندہ رہا۔‘‘ کیا ہے۔ یہ غلط ہے۔ دکھائیے یہ کس لفظ کا ترجمہ ہے۔ اسی طرح فلما توفیتنی کے معنے موت بھی غلط کئے ہیں۔ توفی کے معنی کس چیز کو پورا پورا لینے کے ہیں( اس کے ثبو ت میں حضرت مولانا نے مرزا قادیانی کی تحریر پیش کی جو آگے آتی ہے) باقی رہا آپ کا یہ کہنا کہ حضرت مسیح نے صرف دوزمانوں کا ذکر کیا ہے۔ تیسرے کا نہیں۔ سو صاحب من! عدم ذکر سے عدم شے لازم نہیں آتا۔ فتدبر!
تعجب ہے کہ مرزائی مولوی صاحب نے اخیر تک اس تقریر کا کوئی جواب نہیں دیا اور نہ ہی دوبارہ اس آیت کو پیش کیا۔
دوسری دلیل ۱ ؎
مرزائیوں کی طرف سے ثبوت وفات مسیح پر یہ پیش کی گئی:
قرآن شریف میں ہے: ’’یا عیسیٰ انی متوفیک ورافعک الیّ ومطہرک من الذین کفروا وجاعل الذین اتبعوک فوق الذین کفروا الیٰ یوم القیامۃ‘‘ اے عیسیٰ میں تجھے وفات دینے والا ہوں۔ پھر عزت کے ساتھ اپنی طرف اٹھانے والا ہوں اور تجھے کافروں سے پاک کرنے والا ہوں اور تیرے تابعداروں کو کفار پر قیامت تک غلبہ دینے والا ہوں۔‘‘
۱؎ مرزائیوں نے پہلی دوسری بلکہ اور بھی کئی دلیلیں جو آگے نقل ہوں گی پہلی تقریر بیک ہی دفعہ کیں تھیں۔ بنظر سہولت ہر ایک دلیل اوراس کے جواب کو علیحدہ علیحدہ لکھ دیا ہے۔ تاکہ ناظرین کو سمجھنے میں آسانی ہو۔ مرتب