بلکہ آنحضرتﷺ فرماتے ہیں کہ دنیا کے آخیر تک قریب تیس کے دجال پیدا ہوںگے۔ جو نبوت کا دعویٰ کریںگے۔ (ازالہ اوہام ص۱۹۹، خزائن ج۳ ص۱۹۷)
پھر بھی بعض دنیا جیفہ کے طلب گاروں نے نبوت کا دعویٰ کیا اور اسی پر بس نہ کی۔ بلکہ ’’بکف چراغ داشتہ‘‘ قرآن مجید اور احادیث نبویہ علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام سے اجرائے نبوت ثابت کرنے کی کوشش یاللعجب کی۔ منجملہ ایسے اشخاص کے اسی صدی کے اندر اسی ملک پنجاب میں ایک صاحب مسمیٰ مرزاغلام احمد قادیانی ولد حکیم غلام مرتضیٰ اٹھے جو ایک طرف تو دعویٰ نبوت کو کفر اور مدعی نبوت کو ’’مسیلمہ کذاب کا بھائی‘‘ (انجام آتھم ص۲۸، خزائن ج۱۱ ص۲۷) کہتے ہیں اور دوسری طرف برملا نبوت کا دعویٰ کیا۔ یہ صاحب بقول خود ۱۲۶۱ھ میں قادیان ضلع گورداسپور میں پیدا ہوئے۔ (تریاق القلوب ص۶۸، خزائن ج۱۵ ص۲۸۳)
جب سات سال کے ہوئے تو بقول خود مولوی فضل الٰہی سے قرآن شریف وفارسی کی چند کتابیں پھر بعمر دس سال مولوی فضل احمد سے کچھ عربی اور بعمر ۱۷سال مولوی گل علیشاہ (شیعہ) سے صرف ونحو کی چند کتابیں پڑھیں۔ علم طبابت میں بھی کچھ دستگاہ رکھتے تھے جو اپنے والد سے انہوں نے حاصل کیا۔ (دیکھو کتاب البریہ ص۱۶۱، خزائن ج۱۳ ص۱۸۱)
اس کے بعد حسب دستور تلاش معاش کی فکر پیدا ہوئی تو قادیان سے چل کر سیالکوٹ وارد ہوئے اور بمشاہرہ پندرہ روپے ماہوار کچہری میں ملازم ہوئے۔ طبیعت میں خواہش تفوق تھی اور موجودہ عہدہ محرری میں بالائی آمدنی حسب منشاء نہ ہوتی تھی۔ اس لئے قدم آگے بڑھایا اور مختاری کا امتحان دیا۔ قسمت کی نامرادی نے اثر دکھایا۔ امتحان میں فیل ہوئے۔ جس سے نہ صرف تمام وہ ہوائی قلعے جو کثیر آمدنی کی خیالی وذہنی بنیادوں پر قائم کئے تھے۔ دھم سے گرکر چکنا چور ہوگئے۔ بلکہ نوکری سے بھی طبیعت اچاٹ ہوگئی۔ نوکری کو سلام کیا اور گھر کو سدھارے۔ مگر دل میں برابر حصول دولت کی خواہش ناموری کی امنگ موجود تھی۔
بچپن سے ہی مختلف مذاہب کی کتابیں پڑھنے کا شوق تھا اور علم جیسا کہ مذکور ہو چکا ہے۔ خیر سے چھ ہرٹے تک ہی پڑھا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ابتدائی عمر میں ہی دہریت کے عمیق گڑھے میں اوندھے منہ گرے۔ لہٰذا خدا کا خوف یا عاقبت کا فکر تو تھا ہی نہیں۔ نوکری سے چھوٹتے ہی دولت پیدا کرنے کے لئے نئے راستہ کا تجسس شروع کیا۔ تھوڑے عرصہ بعد ہی مذہب کی آڑ میں جلب زرکا آسان ترین راستہ ڈھونڈ نکالا۔ ابتداً خادم اسلام کی شکل میں نمودار ہوئے اور