لگ رہی ہے۔ خدا نے مجھے خبر دی ہے۔ طاعون کے اس سخت حملہ کی جو عنقریب ہونے والا ہے۔ یہ اس لئے کہ لوگ متنبہ ہو جائیں۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۵۱۵، اشتہار الوصیت)
اس تحریر میں خود مرزاقادیانی نے اس فقرہ عفت الدیار سے مراد بوحی الٰہی طاعون لکھی ہے۔ اس کی مزید تشریح دوسرے مقام پر یوں کی گئی ہے کہ: ’’کسوف اور خسوف کے ساتھ ہی قرآن شریف میں این المفر آیا ہے۔ جس سے یہی مراد ہے کہ طاعون اس کثرت سے ہوگی کہ کوئی جگہ پناہ نہ رہے گی۔ میرے الہام عفت الدیار محلھا ومقامہا کے یہی معنی ہیں۔‘‘
ناظرین! اس لفظ ’’یہی‘‘ کو یاد رکھیں۔ (اخبار الحکم ۲۴؍نومبر ۱۹۰۴ء ص۲) حضرات! دیکھئے کس زور شور سے اس الہام سے لفظ یہی کے ساتھ طاعون پر تمسک کیا ہے۔ مگر آپ یہ سن کر انگشت بدنداں رہ جائیںگے کہ مرزاقادیانی نے اسی الہام سے (جس کا مطلب یہاں طاعون بتایا ہے وہ بھی لفظ یہی کے ساتھ جو حصر کے لئے آتا ہے) دوسرے وقت اسی لفظ یہی سے زلزلہ عظیمہ کے بعد اس کا مطلب زلزلہ بتایا ہے۔ ناظرین کرام ملاحظہ فرمائیں اور مرزاقادیانی کی مسیحیت کی داددیں۔ آپ راقم ہیں۔
’’دیکھو وہ نشان کیسا پورا ہوا اور جیسا کہ میں نے ابھی لکھا ہے کہ پیش گوئی مذکورہ الحکم اور البدر میں اس زلزلہ سے قریباً پانچ ماہ پہلے شائع کردی گئی تھی اور پیش گوئی یہ ہے۔ ’’عفت الدیار محلہا ومقامہا‘‘ اے عزیزو! اس کے یہی معنی ہیں کہ محلون اور مقاموں کا نام ونشان نہ رہے گا۔ طاعون تو صرف صاحب خانہ کو لیتی ہے۔ مگر جس حادثہ کی اس وحی الٰہی میں خبر دی گئی۔ اس کے تو یہ معنی ہیں کہ نہ خانہ رہے گا نہ صاحب خانہ۔ سو خدا تعالیٰ کافرمودہ پورا ہوگیا۔ آپ صاحبوں کو معلوم ہے کہ اس کی نسبت اشتہار الوصیت میں خبر دی گئی تھی ۱؎۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۵۲۲)
باانصاف وباایمان اصحاب ملاحظہ فرمائیں کہ پہلے تو بڑے زور شور سے اس الہام کو یہی کے لفظ سے مخصوص بہ طاعون لکھا۔ مگر زلزلہ عظیمہ کے بعد اسی لفظ یہی سے زلزلہ کے متعلق محصور کرلیا۔ کیا یہ خلل دماغ تو نہیں؟
۱؎ مثل مشہور۔ دزدے کہ بکف چراغ دارد۔ اس جگہ ٹھیک چسپاں ہورہی ہے۔ ناظرین اشتہار الوصیت کی عبارت ایک دفعہ پھر پڑھ لیں۔ وہاں صاف الفاظ میں اس فقرہ کا مطلب طاعون لکھا ہے۔