کے لقب سے اپنے فریقان صحبت اور جنت بمعنی وسائل نجات لکھا۔ پھر آدم سے پہلی بیوی، مریم سے دوسری، احمد سے منکوحہ آسمانی بتائی۔ پھر تین آئندہ واقعات کو ہتھ ٹوکا قرار دیا۔ اس کے بعد کتاب (تریاق القلوب ص۷۷، خزائن ج۱۵ ص۳۰۴) پر احمد سے دوسری بیوی اور جنت سے مراد حقیقی بہشت تحریر کیا۔
مابعد (تریاق القلوب ص۱۶۲،۱۶۳، خزائن ج۱۵ ص۴۷۹) پر تینوں الہامات کو ایک بیوی کے متعلق کہا اور اس جگہ تو غضب ہی کردیا کہ زوجہ کے معنی جوڑا اور جنت کے معنی اپنی حقیقی ہمشیرہ بتائی۔ یعنی مطلب یہ کہ اس الہام میں میری پیدائش کی طرف اشارہ ہے نہ کہ آئندہ کسی ایک یا بہت سی بیویوں یا واقعات کا ذکر، تفوائے چرخ گردوں تفو۔
اے خدا واقعی تیری مخفی تدبیریں انسانی عقل وفہم سے بالا ہیں۔ تو ہی وہ ذات صاحب اقتدار ہے کہ جھوٹے، دغاباز اور مفسد اشخاص کو بقول مرزا بعض اوقات خود انہی کے ہاتھ سے روسیاہ کراتا ہے۔ چنانچہ مرزاقادیانی نے تیرے تصرف سے سچ اور بالکل حق لکھا ہے کہ: ’’خدا کا نام قرآن شریف کی رو سے خیرالماکرین اس وقت کہا جاتا ہے کہ جب وہ کسی مجرم مستوجب سزا کو باریک اسباب کے استعمال سے سزا میں گرفتار کرتا ہے۔ یعنی ایسے اسباب اس کی سزا کے لئے مہیا کرتا ہے کہ جن اسباب کو مجرم کسی اور ارادہ سے اپنے لئے آپ مہیا کرتا ہے۔ پس وہی اسباب جو اپنی بہتری یا ناموری کے لئے مجرم جمع کرتا ہے۔ وہی اس کی ذلت اور ہلاکت کا موجب ہوجاتے ہیں۔ قانون قدرت صاف گواہی دیتا ہے کہ خدا کا یہ فعل بھی دنیا میں پایا جاتا ہے کہ وہ بعض اوقات بے حیا اور سخت مجرموں کی سزا ان کے ہاتھ سے دلواتا ہے۔ سو وہ لوگ اپنی ذلت اور تباہی کے سامان اپنے ہاتھ سے جمع کرلیتے ہیں اور ان کی نظر سے وہ امور اس وقت تک مخفی رکھے جاتے ہیں جب تک خدا تعالیٰ کی قضا وقد نازل ہوجائے۔ پس اس مخفی کاروائی کے لحاظ سے خدا کا نام ماکر ہے۔‘‘ (رسالہ استفتاء حاشیہ ص۷،۸، خزائن ج۱۲ص۱۱۶)
احمدی بھائیو! خدارا مذکورہ بالا تحریر اور مرزا قادیانی کی پراز مغالطات چالوں کو ملحوظ رکھ کر سوچو اور خوب غور کرو۔ پھر دیکھو کہ خدا کا قانون قدرت مرزا قادیانی کے ساتھ صادق انبیاء کا سلوک کرتا ہے یا بے راہ اور سخت دل مجرموں کی تباہی وبربادی خود انہی کے ہاتھوں والا منظر دکھاتا ہے؟۔ انصاف! انصاف! انصاف!
ہاں اس کے ساتھ یہ بھی بتلائو کہ تمہارے علم کلام میں، تمہارے الہامی ذہن رسا میں