جو میری نسبت ہوا۔ جس کے یہ معنی ہیں کہ اے آدم تو اپنے جوڑے کے ساتھ جنت میں رہ۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ آدم صفی اﷲ کے وجود کا سلسلہ دوریہ اس عاجز کے وجود پر آخر ختم ہوگیا۔ یہ بات اہل حقیقت اور معرفت کے نزدیک مسلم ہے کہ مراتب وجود دوریہ میں بعض بعض کی خو اور طبیعت پر آتے رہتے ہیں۔ (ص۳۷۴) سو ضرور تھا کہ مرتبہ آدمیت کی حرکت دوری زمانہ کے انتہاء پر ختم ہوتی۔ سو یہ زمانہ جو آخر الزمان ہے۔ اس میں خداتعالیٰ نے ایک شخص کو حضرت آدم علیہ السلام کے قدم پر پیداکیا۔ جو یہی راقم (مرزا) ہے اور اس کا نام بھی آدم رکھا اورپہلے آدم کی طرح خدا نے اس آدم کو بھی زمین کے حقیقی انسانوں سے خالی (کیا مرزاقادیانی کے بعد جو مرزائی پیدا ہوئے وہ حقیقی انسان نہیں ہیں) ہونے کے وقت پیدا کیا اور ظاہری پیدائش کے رو سے اسی طرح نر اور مادہ پیدا کیا۔ جس طرح کہ پہلا آدم پیدا کیا تھا۔ یعنی اس نے مجھے بھی جو آخری آدم ہوں جوڑا کیا۔جیسا کہ الہام ’’یٰادم اسکن انت وزوجک الجنۃ‘‘ میں اس بات کی طرف ایک لطیف اشارہ ہے اور بعض گذشتہ اکابر نے خدا تعالیٰ سے الہام پاکر یہ پیش گوئی بھی کی تھی کہ وہ انتہائی آدم جو کہ مہدی کامل اور خاتم ولایت عامہ ہے۔ اپنی جسمانی خلقت کے رو سے جوڑا پیدا ہوگا اور خاتم الاولاد ہوگا۔ کیونکہ آدم نوع انسان میں سے پہلا مولود تھا۔ سو ضرور ہوا کہ وہ شخص (مرزا) جس پر بکمال وتمام دورہ حقیقت آدمیہ ختم ہو۔ وہ خاتم الاولاد ہو۔ یعنی اس کی موت کے بعد کوئی کامل انسان کسی عورت کے پیٹ سے نہ نکلے۔ اب یاد رہے کہ اس بندہ حضرت احدیت کی پیدائش جسمانی اس پیش گوئی کے مطابق ہوئی۔ یعنی میں تو ام پیدا ہوا تھا اور میرے ساتھ ایک لڑکی تھی جس کا نام جنت تھا اور یہ الہام کہ: ’’یٰادم اسکن انت وزوجک الجنۃ‘‘ جو آج سے بیس برس پہلے (براہین احمدیہ ص۴۹۶) میں درج ہے۔ اس میں جنت کا لفظ ہے۔ اس میں ایک لطیف اشارہ ہے کہ وہ لڑکی کہ جو میرے ساتھ پیدا ہوئی۔ اس کا نام جنت تھا۔‘‘
(تریاق القلوب ص۳۷۴، ۳۷۸، خزائن ج۱۵ ص۴۷۹)
احمدی بزرگو! براہین احمدیہ میں درج شدہ ترجمہ ومفہوم تو بھلا بلا تفہیم الٰہی اور عالم حیرت کا تھا۔ یہ ترجمہ ومطلب کس عالم کا ہے؟ شاید عالم بے خودی کا ہوگا۔ آہ! اے شوق مسیحیت ومہدویت! تیرا ستیاناس ہو جائے۔ ظالم! تو اپنی دلفریب تاثیر سے کیسے کیسے مدعیان انانیت کو ذلیل ورسوا کرتا ہے۔
حضرات! غور فرمائیے۔ ابتداء ’’مرزاقادیانی نے آدم، احمد، مریم، بنتے ہوئے زوجہ