نوٹ معماری
براہین احمدیہ میں اس الہام احمد اسکن کے ماتحت احمد بمعنی غلام احمد اور زوجہ بمعنی مریدان خود ’’بتصرف خدا‘‘ لکھا تھا۔ پھر ضمیمہ انجام آتھم میں یہ کہتے ہوئے کہ اس الہام کا بھید اس وقت خدا نے مجھ پر کھول دیا ہے۔ احمد اسکن سے مراد تیسری بیوی۔ یعنی آسمانی منکوحہ بنائی۔ پھر بہ ارادہ الٰہی سراج منیر میں تین واقعات آئندہ کو ہتھ ٹھوکا بنایا اور اس جگہ الہام احمد اسکن سے مراد اپنی دوسری بیوی جو ۱۸۸۳ء (اسی کتاب نزول المسیح ص۱۴۶ پر اس شادی کی تاریخ ۱۸۸۳ء کے قریب لکھی ہے) سے مرزاقادیانی کے نکاح میں آچکی تھی۔ (نزول المسیح ص۲۰۸، خزائن ج۱۸ ص۵۸۶) پر لگادیا ہے۔
مرزائیو! کیا تمہارے نزدیک ’’مسیح موعود‘‘ بننے کے لئے اسی قدر راست روی راست شعاری کی ضرورت ہے۔ یا اس سے زیادہ کی؟
خدا والو خدا کو دیکھ کر کہنا خدا لگتی
اسی کتاب تریاق القلوب کا دوسرا سین۔
شربت اعجاز سے شربت دینار
ایک دفعہ جس کو قریباً اکیس برس کا عرصہ ہوا مجھ کو یہ الہام ہوا۔ ’’اشکر نعمتی رئیت خدیجتی انک الیوم لذو حذ عظیم‘‘ (ترجمہ) میری نعمت کا شکر کر تو نے میری خدیجہ کو پایا۔ آج تو ایک حظ عظیم کا مالک ہے۔ (براہین احمدیہ ص۵۵۸، خزائن ج۱ ص۶۶۶)
اور اس زمانے کے قریب ہی یہ بھی الہام ہوا تھا۔ ’’بکروثیب‘‘ یعنی ایک کنواری اور ایک بیوہ تمہارے نکاح میں آئے گی۔ یہ مؤخر الذکر الہام مولوی محمد حسین بٹالوی ایڈیٹر اشاعت السنۃ کو بھی سنادیا گیا تھا اور اس کو خوب معلوم تھا کہ ان صفات کی ایک باکرہ بیوی کا وعدہ کیاگیا ہے۔ جو خدیجہ کی اولاد میں سے یعنی سید ہوگی۔
اسی کی تائید میں وہ الہام ہے جو (براہین احمدیہ ص۴۹۲،۴۹۶، حاشیہ دوم، خزائن ج۱ ص۵۸۵) میں درج ہے اور وہ یہ ہے۔ ’’اردت ان استخلف فخلقت آدم‘‘ اور ’’یٰادم اسکن انت وزوجک الجنۃ یا مریم اسکن انت وزوجک الجنۃ یا احمد اسکن انت وزوجک الجنۃ‘‘ اس کے یہ معنی ہیں کہ اے آدم تو معہ اپنی زوجہ کے بہشت میں داخل ہو۔ اسی لحاظ سے میرا نام آدم رکھاگیا۔ کیونکہ خداتعالیٰ جانتا تھا کہ مجھ سے ایک نیا خاندان شروع