۔ اس کا اس تحریک میں حصہ لینا اس بات کی علامت تھی کہ وہ اپنے آقا کے اشارے پر ناچ رہی ہے اور انہیں کشمیر کے مفادات اور مسلمانوں پر ہونے والے مظالم سے کوئی ہمدردی نہیں۔ حالانکہ اس سے پہلے عثمانیوں پر کوہ غم ٹوٹا۔ ہندوستان کے مسلمان تڑپ اٹھے۔ تحریک خلافت کا آغاز ہوا۔ اس موقع پر قادیانی نہ صرف یہ کہ اس تحریک سے علیحدہ رہے۔ بلکہ جب ترکی کو شکست ہوئی اور بغداد برطانوی قبضے میں چلا گیا تو قادیان میں جشن فتح منایاگیااور چراغاں کیاگیا۔‘‘ (منیر رپورٹ ص۱۹۶)
’’۲۷؍نومبر کو انجمن احمدیہ برائے امداد جنگ کے زیر انتظام حسب ہدایات حضرت خلیفتہ المسیح ثانی ایدہ اﷲ تعالیٰ گورنمنٹ برطانیہ کی شاندار اور قابل یادگار فتح کا جشن منایاگیا۔ نماز مغرب کے بعد دارالعلوم اور اندرون قصبہ میں روشنی اور چراغاں کیاگیا۔ خاندان مسیح موعود کے مکانات پر بھی چراغ روشن کئے گئے۔‘‘ (اخبار الفضل قادیان ج۶ ش۴۱ ص۲، مورخہ ۳؍دسمبر ۱۹۱۸ئ)
جن قادیانیوں کا یہ کردار اور جن کی انگریز سے وفاداریاں اس عروج کو پہنچی ہوئی تھیں اور جنہوں نے مسلمانوں کی ہر تحریک کی مخالفت کی تھی۔ انہوں نے آزادیٔ کشمیر کی تحریک میں محض برطانوی مفادات کے حصول کے لئے شرکت کی۔
اس تحریک میں قادیانیوں کی شمولیت کا دوسرا بڑا مقصد یہ تھا کہ کشمیر کو اپنی تحریک کی بنیاد بنایا جائے۔ چنانچہ مرزابشیر الدین محمود نے ایک خطبہ میں کہا: ’’بیشک قادیان ہمارا مذہبی مرکز ہے۔ لیکن اس وقت ہم نہیں کہہ سکتے کہ ہماری قوت اور ہمارے وقار کا مرکز کون سے مقام پر قائم ہوگا۔‘‘
(الفضل ج۲۲ ش۶۶ ص۱۳، مورخہ ۲۹؍نومبر ۱۹۳۴ئ)
کشمیر کو اپنا Base بنانے کی تیاری کے سلسلے ہی کی ایک کڑی یہ ہے کہ قادیانیوں کا دعویٰ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کشمیر آگئے تھے اور یہیں ان کا انتقال ہوا اور یہیں ان کی قبر موجود ہے۔
چنانچہ ۱۹۳۱ء میں جب تحریک آزادیٔ کشمیر کا اعلان ہوا تو: ’’حضرت امام جماعت احمدیہ ایدہ، اﷲ تعالیٰ العزیز جو پہلے ہی مناسب موقع کے انتظار میں تھے۔ یکایک میدان عمل میں آگئے۔‘‘ (الفضل ۱۲؍جون ۱۹۳۱ئ)
جب کشمیر کمیٹی کا قیام عمل میں آیا تو قادیانی زعماء بڑی تعداد میں وہاں بھیجے گئے۔ اس دوران سینکڑوں مبلغین ریاست میں پہنچے اور ریاست کے چپے چپے کا دورہ کر کے قادیانی عقائد کی تبلیغ