یہ ہرقسم کے اغلاط سے مبّٰرا اور پاک ہے۔ مخلوق میں سے کسی کی ہستی نہیں کہ اس میں اپنی طرف سے ایک حرکت تغیر وتبدل کر سکے۔ اس میں غلطی کا امکان محال ہے۔ یہ ایک ایسا خورشید درخشاں ہے جو گردوغبار سے دھندلا نہیں ہوسکتا۔ یہ دنیا کے اغلاط کی تصحیح کے لئے اترا ہے۔ اس کی اغلاط ناممکن ہیں۔
جو بھی اس میں غلطی کا معتقد ہے وہ ایک گمراہ بے دین اور مذہب اسلام کا حقیقی دشمن ہے۔ ایک مراقی نبی کی مراقی امت کی بکواس بے جا سے اس رفیع منزلت تنزیل پر حرف نہیں آسکتا۔ آپ لوگ یہ پڑھ کر حیران ہوںگے کہ جس طرح مرزاقادیانی قرآن کو ایک ممکن التبدیل کتاب تصور کرتے ہیں۔ اسی طرح ان کے حکیم الامت نور الدین صاحب بھی قرآن خوانی بحالت ناپاکی وجنابت جائز جانتے ہیں۔ نعوذ باﷲ منہا! چنانچہ حکیم صاحب مذکور فرماتے ہیں۔ ’’ناپاکی وجنابت کی حالت میں بھی قرآن شریف پڑھنا جائز ہے۔ جنبی حالت میں درود واستغفار بلکہ قرآن بھی پڑھ سکتا ہے۔‘‘ (فتاویٰ احمدیہ ج۱ ص۷۸)
’’انا لللّٰہ وانا الیہ راجعون‘‘
مرزاقادیانی نے اپنی لومڑ چال سے کبھی کچھ بکا کبھی کچھ۔ مگر مرزاقادیانی کے معتقدین نے بھی جوچاہا جس ہستی کے متعلق جوکچھ زبان قلم سے مناسب سمجھا تھوک دیا۔ حالانکہ مرزاقادیانی نے اپنے ’’مراقی‘‘ اور کم عقل ہونے کا اعلان بھی (ریویو ماہ اپریل ۱۹۰۳ئ، حاشیہ ص۱۵۳) پر صاف الفاظ میں بکا کہ: ’’مجھے مراق ہے۔‘‘
غور فرمائیے کہ ایک مراقی آدمی حالت مراق میں جو کچھ کہے، بکتا جائے، کم از کم دوسرے سننے یا دیکھنے والوں کو تو اس کے اقوال پر کان نہ دھرنا چاہئے۔ یہ امت مرزائیہ عقل کے اندھے گانٹھ کے پکے۔ اندھا دھند امتی بنے پھرتے ہیں۔ مراقی نبی کے مراقی الہامات پر اعتقاد دھرے چاہ ضلالت میں یکے بعد دیگرے گرتے چلے جارہے ہیں۔