جگہ مذکور ہیں۔ اناجیل کی زبان اور تیور دیکھو۔ تمہیں اندازہ ہوگا کہ انبیاء کے بیان میں کس درجہ، بلاغت کتنی شوکت وحشمت اور کس درجہ رکھ رکھائو ہوتا ہے اور سب سے آخر میں پھر قرآن کو دیکھو جس میں نظم کی سی موزونیت، شعر کا ساترنم اور نثر کا پھیلائو اور وسعتیں ہیں جو بیک وقت نظم ونثر کی تمام خوبیوں کا حامل ہے۔ ایک ایک لفظ نہیں ایک ایک شوشہ اور لفظ کتنا تیکھا اور کتنا شوخ ہے۔ انداز بیان کتنا مدلل کتنا شیریں اور پرازمعنی ہے۔ سینکڑوں تفسیریں لکھی گئیں اور ہر تفسیر میں اس کے حسن وجمال اور معنی ومغز کو اپنے انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی۔ لیکن نہ تو گہرہائے معانی ختم ہوئے اور نہ اس کے حسن وجمال کی داستانیں ہی کم ہوئیں اور خدا ہی جانتا ہے ابھی کتنے رازی، کتنے زمخشری، کتنے ابن تیمیہ اور ابن قیم پیدا ہوں گے اور قرآن کے حکم واسرار کے کیا کیا پہلو انسان کے ذوق ادب کی تسکین کا سامان بہم پہنچائیں گے۔ احادیث پر اس نقطہ نظر سے غور کرو کہ آنحضرتؐ کے اقوال واعمال کا یہ مجموعہ کتنے نوادرادب اپنے اندر پنہاں رکھتا ہے۔ ان کو رذوقوں سے بحث نہیں جنہیں دین کی صحیح سمجھ ہی عطا نہیں ہوئی۔ جن لوگوں نے باقاعدہ ریاض نبوت کے ان گل بوٹوں کو دیکھا ہے جن کی ترتیب وتزیین میں محدثین نے بڑی بڑی مشقتیں اٹھائی ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ تنہا ان کی ادبی حیثیت کتنی اونچی ہے۔ انبیاء علیہم السلام جہاں اپنے ماننے والوں کو زندگی کا ایک صحیح نظام عطا کرتے ہیں۔ زمانے کی گتھیوں کو سلجھاتے ہیں۔ عمل وسیرت کے نقوش کو اجاگر کرتے ہیں اور تہذیب وثقافت کے ہزاروں باریک نکتے سمجھاتے ہیں۔ وہاں قوم کو ذوق ادب بھی عطا کرتے ہیں۔ یہ قاعدہ کی بات ہے کہ انبیاء ایک معیار اور نمونہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس لئے جس ذوق اور جس معیار کے حامل ہوں گے اسی طرح کا ذوق ومعیار ان کے ماننے والوں میں بھی ابھرے گا۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ امت محمدیہ علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اس نعمت سے خصوصیت سے نوازا گیا ہے۔ آج بھی دنیا بھر کے ادب کو کھنگال ڈالئے۔ خالص ادبی حیثیت سے اسلامی لٹریچر کا جائزہ لیجئے۔ ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ اس میں جوجمال ہے، جو رعنائی اور خوبیاں ہیں وہ کہیں نہیں ملیں گی۔ یہ ایک مستقل موضوع ہے۔ تحقیق وتنقید کا کہ دنیا کے لٹریچر میں اسلامی ادب کا کیا مقام ہے؟۔ یقین جانئے کہ جب کبھی اس پر غور کیاگیا اور لکھا گیا تو یہ بجائے خود ایک بہت بڑی خدمت ہوگی عالمی ادب کی۔ اس مختصر تمہید کا مقصد صرف یہ ہے کہ آپ کو معلوم ہو کہ نبوت بھی ایک حسن ہے اور حسن کی پہچان کے جہاں اور بیسیوں پیمانے ہیں وہاں ایک پیمانہ ادب وذوق کی شائستگی کا بھی ہے اور ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ یہ پیمانہ نسبتاً زیادہ واضح ہے۔ اس صدی میں جب ایک شخص ادعائے نبوت کے ساتھ ہمارے سامنے آئے گا اور قرآن کے اس معیار کے بعد آئے گا تو