کسوٹیاں اس لئے ہیں کہ ہر شخص کا ذوق دوسرے سے علیحدہ ہے اور وہ مجبور ہے کہ اپنے ذوق کی رعایت بہرآئینہ ملحوظ رکھے۔ علم الاخلاق کے نقطہ نظر سے ایک شخص یہ دیکھے گا کہ یہ شخص جو نبوت کا داعی ہے کس ڈھب کے اخلاقیات کو پیش کرتا ہے؟۔ کیا یہ کسی منضبط نظام کے تابع ہے؟۔ کیا اس لائق ہے کہ اسے انسانی معاشرہ کے سامنے بطور نصب العین کے پیش کیا جائے۔ عمرانیات کے ماہریوں دیکھیں گے کہ یہ جس ضابطہ حیات کو پیش کرتا ہے۔ کیا اس سے زندگی کی گاڑی کامیابی سے آگے بڑھتی ہے؟ اور ایک سیاسی دماغ اس کی دعوت میں ایک ایسے چوکھٹے کی تلاش کرے گا جس میں ایک ہموار، متوازن اور صحیح صحیح زندگی کے نقشے کی تمام چولیں عمدگی سے بٹھائی جاسکیں۔ غرض نبوت ایک ایسی سچائی ہے جس کو کسی کسوٹی پر پرکھئے، کسی ڈھب سے دیکھئے اور کسی ترازو سے تولئے۔ یہ سچائی ہی رہے گی اور اس کے وزن یا قیمت میں سرموفرق نہیں پیدا ہوگا۔ آج ہم قارئین کے سامنے فکرونظر کا بالکل نیا پیمانہ پیش کرنا چاہتے ہیں۔ جس کو ملحوظ رکھ کر مرزاقادیانی کی پیغمبرانہ صلاحیتوں کا جائزہ لیا جائے اور یہ دیکھا جائے کہ کیا ایسا شخص کسی عقلی اعراز کا مستحق ہے۔ وہ پیمانہ ہے نفسیات کا… اور یہ وہ فن ہے جس سے ایک شخص کے اس مزاج کا ٹھیک ٹھیک اندازہ ہوتا ہے۔ خارجی زندگی جس کا مظہر ہوتی ہے۔ کیونکہ نفسیات کا یہ مانا ہوا اصول ہے کہ ہماری زندگی کا ہرہر طور تابع ہوتا ہے۔ اس بنے اور ڈھلے ہوئے نظام کے جس کا گہرا تعلق ہمارے نفس باطن سے ہے۔ یہ نظام یا مزاج نفسی جتنا اعلیٰ اور باقاعدہ ہوگا۔ ہماری خارجی زندگی بھی اسی نسبت سے اعلیٰ اور باقاعدہ ہوگی… اور پیغمبر کے متعلق یہ بھی نہ بھولئے کہ جہاں وہ حق وصداقت کا پیکر ہوتا ہے وہاں اس کا نفسیاتی مزاج بھی نہایت عمدہ، نفیس اور منضبط ہوتا ہے۔
اس علم کی دسترس اتنی زبردست ہے کہ چھوٹی چھوٹی باتوں سے زندگی کے بڑے بڑے بھید معلوم ہو جاتے ہیں۔ چند مثالوں سے اس کی حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کیجئے۔ فرض کیجئے ایک شخص کے بال الجھے ہوئے ہیں اور وضع میں بے قاعدگی اور بے ترتیبی ہے تو اس سے یہ معلوم ہوگا کہ اس کے ذہن میں سلجھاؤ یا قرینہ کا احساس مفقود ہے۔ یا یہ شخص جمالیات کے ذوق سے قطعی محروم ہے۔ ایک شخص کی یہ عادت ہے کہ جب سوتا ہے تو پوری طرح منہ ڈھانپ کر، اس سے اس کی یہ کمزوری معلوم ہوگی کہ یہ زندگی کے مصائب میں گریز اور فرار کی راہ کو زیادہ پسند کرتا ہے اور اس میں مقاومت اور مقابلہ کی صلاحیتیں کم ہیںَ اسی طرح فرض کیجئے ایک شخص باربار گفتگو کرتے وقت اپنے متعلق زیادہ تفصیلات بیان کرتا ہے اور اپنی ذات کو بات چیت کا مرکز ومحور ٹھہراتا ہے تو ایسا شخص اس وہم میں مبتلا ہے کہ لوگ اس سے کم دلچسپی لیتے ہیں۔ حالانکہ وہ اس سے زیادہ کا مستحق