انگریزی عہد اقتدار میں احساس کہتری کا ہم اس شدت سے شکار ہوئے کہ ہماری ہر بات سے ایک طرح کی بے چینی ٹپکنے لگی۔ سیاسیات سے لے کر مذہب تک میں معذرت طلبی کا عنصر غالب رہا۔ دین سے متعلق ہماری بڑی سے بڑی آرزو یہ تھی کہ کسی نہ کسی طرح مغربی خیالات وتصورات سے اس کی ہم آہنگی ثابت ہوجائے اور ہم دوسروں سے ببانگ وہل یہ کہہ سکیں کہ ہمارا مذہب بحمداﷲ عقل وفکر کی جدید کسوٹیوں پر پورا اترتا ہے۔ حالانکہ یہ نقطۂ نظر مذہب کی موت تھا۔ کیونکہ یہ تو اس وقت زندہ رہتا ہے جب اس کی حیثیت ایجابی اور جارحانہ ہو۔ جب یہ زمانہ کے اغلاط پر اہل زمانہ کوٹوکے، نظری وعملی گمراہیوں پر ڈانٹے اور خود اعتدال وعقل میں سمویا ہوا زندگی کا ایک ڈھب پیش کرے۔ ورنہ علم کلام کی لیپا پوتی اور نئے نئے تصورات حیات کی تائید ونصرت اس کی گرتی ہوئی دیواروں کو نہیں بچاسکتیں۔ مذہب جب تک آگے آگے رہتا ہے۔ زندہ رہتا ہے اور جہاں اس کی حیثیت ثانوی ہوئی ختم ہوگیا۔ یہ قائد بن کر دنیا میں آتا ہے اور اپنی قیادت سے عمر بھر دستبردار نہیں ہوتا۔ اس کی غیرت وخود داری تتبع واطاعت کی ذلتیں کبھی برداشت نہیں کرسکتی۔
اس معذرت طلبی کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مذہبی تصور صرف مناظرہ بن کررہ جاتا ہے۔ یعنی اس میں وہ بھاری بھرکم پن طبعی سنجیدگی، ایجابیت اور وقار نہیں رہتا۔ جو اس کی وہ خصوصیات ہیں جو کبھی جدا نہیں ہوتیں۔ بلکہ یہ صرف اکھاڑے کی ایک شئی ہوکے رہ جاتا ہے اور ظاہر ہے مذہب اٹھاپٹخ کا نام ہرگز نہیں ہے۔ یہ ایک پیغام سے تعبیر ہے جو حد درجہ سنجیدہ ہے۔ ایک دعوت کا نام ہے جس میں ایجاب واثبات کے کامیاب پہلو نمایاں ہیں۔ مذہب زندگی ہے۔ تہمت زندگی نہیں۔ لہٰذا ہمیں ایک مدعی نبوت سے جو توقع ہوسکتی تھی۔ وہ یہ تھی کہ وہ مناظرہ بازی اور سستی کتب فروشی سے بالاتر ہوکر مذہب کے تصور کو اسی دلکشی سے پیش کرے۔ ایسی اجابیت کے انداز میں دہرائے کہ مغربی علوم کی آمد آمد سے جو ایک طرح کی مرعوبیت ذہنوں پر طاری ہوگئی تھی۔ وہ دورہوجائے اسلام کی تعبیر ایسے ڈھب سے لوگوں کے سامنے آئے۔ جس میں مناظرانہ چھچھورپن نہ ہو۔ بحث وجدل کی سطحیت نہ ہو۔ ایک پہلو ان کی اکھاڑ پچھاڑ نہ ہو۔ بلکہ ایک حکیم کی سوجھ بوجھ ہو۔ ایک فلسفی کی متانت ہو اور پاکیزہ سیرت ہو۔ ایسا سلجھا ہوا عمل ہو اور عملی زندگی کا ایسا پیارا نمونہ ہو کہ جس کی ایک ایک ادا پر اس وقت کی نظریات حیات خود بخود نثار ہوں۔ ہمیں مناظرہ سے نفرت ہے۔ اس سے زیادہ غیر معقول غیر دینی اور غیر نفسیاتی حربہ اور کوئی نہیں ہوسکتا۔ اس کا مذاق عام اس وقت ہوتا ہے۔ جب کسی قوم سے سیرت کی محکمی اور دلائل کی شوکت رخصت ہو جاتی ے۔ جب زندگی وعمل اور نمونہ واسوہ کی جاذبیتیں جواب دے جاتی ہیں۔ یہ ایک طرح کی مذہبی سوفسطائیت ہے۔ جس