نمازیں الگ ہیں۔ مساجد جداگانہ ہیں اورمعاشرتی اعتبار سے اتنی بیگانگی ہے کہ کوئی قادیانی عام مسلمانوں سے رشتہ ناطہ جائز نہیں سمجھتا۔
جذبات کا اختلاف
پھر جذبات کے لحاظ سے بھی اتنی دوئی کہ آپ جن باتوں سے خوش ہوتے ہیں وہ ان کے لئے مطلق خوشی کا سبب نہیں ہوسکتیں۔ مثلاً آپ یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان میں خالص اسلامی نظام رائج ہو۔ مگر قادیانی اخبارات نے ہمیشہ اس رائے کی مخالفت کی۔ آپ کی یہ خواہش ہے کہ پاکستان اور ہندوستان میں تقسیم کی جو لکیر کھینچ دی گئی ہے۔ اب یہ قائم رہے۔ بلکہ زیادہ گہری اور مضبوط ہوتی جائے۔ مگر قادیانی اس خواہش کے اظہار میں قدرتاً مخلص نہیں ہوسکتے۔ کیونکہ ایک تو ان کا قادیان ہندوستان میں رہ گیا ہے۔ دوسرے اس تقسیم سے آدھی جماعت ’’خلیفتہ المسلمین‘‘ کی ہدایات وفیوض سے محروم ہوگئی ہے۔ لہٰذا جب عقیدہ اور عندیات کے اعتبار سے وہ بالکل دوسری طرح کے محسوسات رکھتے ہیں تو پھر خالص سیاسی نقطۂ نظر سے انہیں کیوں الگ قوم نہ کہا جائے۔
یہ مناظرانہ اپج نہیں
ہم صرف اس نکتے کی اور وضاحت کرنا چاہتے ہیں کہ یہ ہوسکتا ہے کہ عام قادیانی حضرات ہماری اس رائے کومحض مناظرانہ اپج قرار دیں اور بظاہر مخالفت کریں۔ مگر ان کے خواص جانتے ہیں کہ یہی وہ مطالبہ ہے جس کو منوانے کے لئے خود ظفر اﷲ نے زور دیا اور ہندوستانی نمائندہ سر سیتلواد سے یہ کہا کہ ہندوستان میں قادیانیوں کو ایک اہم اقلیت قرار دیا جائے۔ اگر عام قادیانی سوچیںگے تو انہیں معلوم ہوگا کہ اس میں انہیں کا فائدہ ہے۔ وہ ایک مرتبہ اس پوزیشن کو مان لیتے ہیں تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ آہستہ آہستہ ان سے پاکستان میں وہی برتاؤ ہونے لگے گا جو دوسری اقلیتوں سے ہوتا ہے اور اگر وہ فرقہ کی حیثیت سے ان حقوق ومفادات پر قابض ہونا چاہیں گے جو عام مسلمانوں کے لئے مخصوص ہیں تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ان کے خلاف تلخیاں زیادہ تیزی سے ابھریںگی اور یہ کبھی بھی کسی حلقہ سے انتخاب جیت نہیں سکیںگے۔
چوہدری ظفر اﷲ کا عارضی اقتدار
چوہدری ظفر اﷲ کے موجودہ اثرورسوخ سے الگ ہوکر انہیں سوچنا چاہئے کہ ان کا حقیقی فائدہ کس بات میں مضمر ہے۔ کیونکہ جلد یا بدیر چوہدری ظفر اﷲ کا یہ اثر بہرآئینہ ان سے چھننے والا