باالمقابل سختی تھی۔ کیونکہ میرے کانشنس نے قطعی طور پر مجھے فتویٰ دیا کہ اسلام میں جو بہت سے وحشیانہ جوش والے آدمی ہیں ان کی غیض وغضب کی آگ بجھانے کے لئے یہ طریق کافی ہوگا۔ کیونکہ عوض ومعاوضہ کے بعد کوئی گلہ باقی نہیں رہتا۔ سو یہ میری پیش بینی کی تدبیر صحیح نکلی اور ان کتابوں کا یہ اثر ہوا کہ ہزارہا مسلمان جو پادری عمادالدین وغیرہ لوگوں کی تیز اور گندی تحریروں سے اشتعال میں آچکے تھے ایک دفعہ ان کے اشتعال فرو ہوگئے۔ کیونکہ انسان کی یہ عادت ہے کہ جب سخت الفاظ کے مقابل پر اس کا عوض دیکھ لیتا ہے تو اس کا وہ جوش نہیں رہتا۔ بایں ہمہ میری تحریر پادریوں کے مقابل پر بہت نرم تھی۔ گویہ کچھ بھی نسبت نہ تھی۔ ہماری محسن گورنمنٹ خواب سمجھتی ہے کہ مسلمان یہ ہرگز نہیں ہوسکتا کہ اگر کوئی پادری ہمارے نبیﷺ کو گالی دے تو ایک مسلمان اس کے عوض میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو گالی دے۔ کیونکہ مسلمانوں کے دلوں میں دودھ کے ساتھ ہی یہ اثر پہنچایا گیا ہے کہ وہ جیسا کہ اپنے نبیﷺ کے ساتھ محبت رکھتے ہیں ویسا ہی حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے بھی محبت رکھتے ہیں۔ سو کسی مسلمان کا یہ حوصلہ ہی نہیں کہ تیز زبانی کو اس حد تک پہنچائے۔ جس حد تک ایک متعصب عیسائی پہنچ سکتا ہے اور مسلمانوں میں یہ عمدہ سیرت ہے جو فخر کرنے کے لائق ہے کہ وہ تمام نبیوں کو جو آنحضرتﷺ سے پہلے گذر چکے ہیں ایک عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور حضرت مسیح علیہ السلام سے بعض وجوہ سے ایک خاص محبت رکھتے ہیں۔ جس کی تفصیل کا اس جگہ موقع نہیں۔ سو مجھ سے جو کچھ پادریوں کے مقابل میں آیا ہے۔ یہی ہے کہ حکمت عملی سے بعض وحشی مسلمانوں کو خوش کیاگیاہے اور میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ میں تمام مسلمانوں میں سے اوّل درجہ کا خیرخواہ گورنمنٹ انگریزی کا ہوں۔ کیونکہ مجھے تین باتوں نے خیرخواہی میں اوّل درجہ کا بنادیا ہے۔
۱… اوّل والدہ مرحومہ کے اثر نے۔
۲… اس گورنمنٹ عالیہ کے احسانوں نے۔
۳… تیسرے خدا تعالیٰ کے الہام نے۔‘‘
تریاق القلوب کے اس حوالہ سے اگرچہ بہت سے نتائج نکل سکتے ہیں۔ مگر ہم اختصار کو پیش نظر رکھتے ہوئے امور ذیل کی طرف توجہ دلاتے ہیں۔
۱…
پادریوں کی بدزبانی کی وجہ سے جو انہوں نے حضورﷺ کے شان ارفع میں کی تھی۔ مسلمانوں میں اشتعال پیدا ہونے اور ملک میں بے امنی پھیلنے کا خطرہ تھا۔۲…
پادریوں کی اس بدزبانی کی وجہ سے غیظ وغضب میں آنا وحشی مسلمان کا کام ہے۔