۳…
پادریوں کی اس بدزبانی کی وجہ سے مسلمانوں کا جوش وحشیانہ جوش ہے۔
۴…
مرزاقادیانی نے امن ملکی کی خاطر پادریوں کے مقابل حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حق میں سخت کلامی کی ہے۔
۵…
جس شخص کے حق میں مرزاقادیانی نے سخت کلامی کی ہے (پادریوں کے مقابل میں) وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہی ہیں۔ کوئی عیسائیوں کا یسوع یا فرضی یسوع نہیں۔
۶…
مرزاقادیانی کی سخت کلامی عوض ومعاوضہ کے طور پر ہے۔ الزامی طور پر نہیں۔
۷…
مرزاقادیانی کی سخت کلامی کا موجب بدامنی کو روکنا اور محسن گورنمنٹ کی خدمت کرنا تھا۔ نہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی محبت کا جذبہ اور عشق رسولؐ کا اثر۔
کھل گیا عشق بتاں طرز سخن سے مؤمن
اب مکرتے کیوں ہو عبث بات بناتے کیوں ہو
۸…
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حق میں سخت کلامی مسلمان سے نہیں ہوسکتی۔
تریاق القلوب کے اس حوالے نے نہ صرف مرزائیوں کے جواب ثالث کو غلط ثابت کیا بلکہ مرزائی مشن کے ہر سہ جوابات کو ہبأ منثورا کردیا۔ خود نہایت وضاحت سے یہ ثابت کردیا ہے کہ یسوع اور عیسیٰ علیہ السلام ایک ہیں اور جوکچھ مرزاقادیانی نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حق میں سخت کلامی کی ہے۔ وہ الزام کے طور پر نہیں بلکہ پادریوں نے جو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی توہین کی تھی۔ اس کا عوض اور بدلہ ہے اور اس بدلہ لینے کا موجب عشق رسول نہیں تھا۔ بلکہ ملک میں بدامنی پھیلنے کا خطرہ تھا۔ اس کو روکنا اور گورنمنٹ عالیہ کی خدمت کرنا تھا۔ جب کہ مرزاقادیانی ان مسلمانوں کو وحشی قرار دیتے ہیں۔ جن کے دلوں میں پادریوں کی بدزبانی کی وجہ سے غیظ وغضب پیدا ہونے کا امکان تھا اور ان کے جوش کو ایک وحشیانہ جوش بتلاتے ہیں تو صاف معلوم ہوا کہ یہ جوش اور غیض وغضب مرزاقادیانی کے نزدیک ناپسند حرکت اور قابل نفرت چیز تھی۔ ورنہ ان مسلمانوں کو وحشی اور ان کے جوش کو وحشیانہ جوش نہ کہتے۔ پھر کیونکر یہ احتمال پیدا ہوسکتا ہے کہ پادریوں کی بدزبانی کی وجہ سے مرزاقادیانی کو بھی جوش اور غیظ وغضب پیدا ہوا۔ پھر نا حق مسلمانوں کو طفل تسلی دینے کے لئے یہ طومار کیوں قائم کیا جاتا ہے کہ پادریوں نے حضورﷺ کے حق میں بدکلامی کی تھی۔ اس لئے مرزاقادیانی نے بھی عشق نبوی سے مجبور ہوکر ان کے نبی کے حالات کو ظاہر کیا ہے۔
’’ہذا آخرما ادونا تحریرہ ونسال اﷲ العلی العظیم ان یوفقنا لما یحب ویرضیٰ‘‘