مرزاقادیانی اس عبارت میں صاف اور غیر مبہم الفاظ میں شیعہ اور عیسائی کے مقابلہ میں حضرت امام حسینؓ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حق میں سخت کلامی کو سفیہانہ کلام اور جاہلانہ حرکت قرار دیتے ہیں اور جو شخص ایسی ناروا حرکت کرے مرزاقادیانی اس کو نادان، جاہل، بدتمیز کہتے ہیں۔ مگر مرزاقادیانی باوجودیکہ مصلح، مجدد، مہدی مسعود، مسیح موعود نبی اور رسول ہونے کے مدعی تھے۔ ان کے لئے یہ کیونکر جائز ہوگیا کہ انہوں نے عیسائیوں کے مقابلہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حق میں سفیہانہ باتیں کہہ کر نادانوں، جاہلوں اور بدتمیزوں جیسا کام کیا۔ کیا نبیوں سے بھی یہ فعل صادر ہوتے ہیں۔ ’’العیاذ باﷲ العلی العظیم‘‘
۳… مرزاقادیانی نے ۲۷؍ستمبر ۱۸۹۹ء کو ایک درخواست بعنوان حضور گورنمنٹ عالیہ میں ایک عاجزانہ درخواست لکھی تھی۔ جس کو تریاق القلوب کے آخر میں بطور ضمیمہ نمبر۳ نقل کیا ہے۔ اس میں مرزاقادیانی نے صاف الفاظ میں اقرار کیا ہے۔ اس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حق میں اپنی سخت کلامی کی وجہ یہ بتلائی ہے کہ بعض پادریوں نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی شان مقدس میں گستاخی اور توہین کی تھی۔ مسلمانوں میں اس بدزبانی کی وجہ سے وحشیانہ جوش پیدا ہونے کا خطرہ لاحق ہوگیا تھا۔ اس جوش کو ٹھنڈا کرنے کی خاطر سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حق میں سخت کلامی کی ہے تاکہ ملک میں بے امنی نہ پھیلے اور اس فعل کو گورنمنٹ کی خیرخواہی ظاہر کیا ہے۔
چنانچہ (ضمیمہ تریاق القلوب ص ب،ج، خزائن ج۱۵ ص۴۹۰، ۴۹۱) میں لکھتے ہیں کہ: ’’اور میں اس بات کا بھی اقرار کرتا ہوں کہ جب پادریوں اور عیسائی مشزیوں کی تحریر نہایت ہوگئی اور حد اعتدال سے بڑھ گئی اور باالخصوص پرچہ نور افشاں میں جو ایک عیسائی اخبار لدھیانہ سے نکلتا ہے۔ نہایت گندی تحریریں شائع ہوئیں اور ان مؤمنین نے ہمارے نبیﷺ کی نسبت نعوذ باﷲ ایسے الفاظ استعمال کئے کہ یہ شخص ڈاکو تھا، چور تھا، زناکار تھا اور صدہا پرچوں میں یہ شائع کیا کہ یہ شخص اپنی لڑکی پر بدنیتی سے عاشق تھا اور بائیں ہمہ جھوٹا تھا۔ لوٹ مار اور خون کرنا اس کا کام تھا۔ تو مجھے ایسی کتابوں اور اخباروں کے پڑھنے سے اندیشہ دل میں پیدا ہوا کہ مبادا مسلمانوں کے دلوں پر جو ایک جوش رکھنے والی قوم ہے۔ ان کلمات کا کوئی سخت دینے والا اثر پیدا ہو۔ تب میں نے ان جوشوں کو ٹھنڈا کرنے کے لئے اپنی صحیح اور پاک نیتی سے یہی مناسب سمجھا کہ اس عام جوش کے دبانے کے لئے حکمت عملی یہی ہے کہ ان تحریرات کا کسی قدر سختی سے جواب دیا جائے تا سریع الغضب انسانوں کے جوش فرو ہو جائیں اور ملک میں کوئی بے امنی پیدا نہ ہو۔ تب میں نے بمقابل ایسی کتابوں کے جن میں سختی سے بدزبانی کی گئی تھی۔ چند ایسی کتابیں لکھیں جن میں کسی قدر